حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ - حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی جوکہ’’ ابوایوب انصاری ‘‘کی کنیت سے معروف ہوگئے،جبکہ ان کانام خالدبن زیدتھا،مدینہ کے مشہورومعروف اورمعززترین خاندان ’’بنونجار‘‘ سے ان کاتعلق تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے دادامحترم یعنی عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بنت عمروکاتعلق بھی اسی خاندان سے ہی تھا،لہٰذااس طرح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس خاندان ’’بنونجار‘‘کی رشتے داری بنتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے والدعبداللہ بن عبدالمطلب جب سیدہ آمنہ بنت وہب کے ساتھ شادی کے محض چندماہ بعدملکِ شام کی طرف تجارتی سفرپرروانہ ہوگئے تھے،اورپھروہاں سے واپسی کے موقع پردورانِ سفربیمارپڑگئے تھے،مکہ اورملکِ شام کے درمیان وہ تجارتی شاہراہ جس پراُس زمانے میں تجارتی قافلے چلاکرتے تھے ٗوہ مدینہ کے قریب سے گذرتی تھی،چنانچہ واپسی کے اس سفرکے دوران جب راستے میں عبداللہ کی طبیعت زیادہ ناسازہوئی اوران کیلئے سفرجاری رکھناکافی مشکل ہوگیا،ایسے میں یہ قافلہ جب مدینہ کے قریب سے گذررہاتھا، توموقع غنیمت جانتے ہوئے عبداللہ سفرجاری رکھنے کی بجائے مدینہ میں ہی رک گئے تھے،’’خاندانِ بنونجار‘‘کے ساتھ اپنی اسی قرابت داری کی وجہ سے انہوں نے مدینہ میں اسی خاندان میں قیام کیاتھا،اورتب ان کی طیعت سنبھل نہیں سکی تھی ، چنددن کی علالت کے بعدوہیں مدینہ میں ہی ان کاانتقال ہوگیاتھا،اورپھروہیں تدفین بھی ہوئی تھی۔ عبداللہ بن عبدالمطلب کے انتقال کے بعدمکہ میں ان کے لختِ جگریعنی رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی،آپؐ کی ولادت کے بعدآپؐ کی والدہ آمنہ بنت وہب ہمیشہ سوچاکرتی تھیں کہ میرایہ نورِنظرجوکہ پیدائشی یتیم ہے ،اس نے اپنے باپ کانام توسناہے ، مگرزندگی بھرآنکھیں باپ کی شکل دیکھنے کیلئے ترستی رہیں گی…باپ کی شکل دیکھناتواسے نصیب نہوسکا،لیکن کم ازکم یہ کہ کاش یہ کسی طرح اپنے باپ کی قبرہی دیکھ لے…لیکن مکہ سے مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا،راستہ دشوارگذارتھا،سفری سہولیات کافقدان تھا،لہٰذاوہ مسلسل بے چینی کے ساتھ انتظارکرتی رہیں کہ یہ بچہ کچھ بڑاہوجائے ،اس طویل سفرکے قابل ہوسکے تومیں اسے وہاں لے جاؤں …آخرجب اس بچے کی عمرکاچھٹاسال چل رہاتھا تب وہ اسے ہمراہ لئے ہوئے مدینہ گئی تھیں …اورتب اپنے اس نورِنظرکی معیت میں انہوں نے بھی وہاں مدینہ میں خاندان’’بنونجار‘‘کے ساتھ اس قرابت داری کی وجہ سے اسی خاندان میں ہی قیام کیاتھا۔(۱) ٭…اورپھرتقریباً سینتالیس سال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعدہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی جب مکہ سے مدینہ تشریف آوری ہوئی تھی،تب ابتداء میں چندروزآپؐ نے مضافاتی بستی ’’قباء‘‘میں قیام فرمایاتھا،اس کے بعدجب آپؐ وہاں سے اندرونِ مدینہ شہرکی جانب روانہ ہوئے تھے …تب آپؐ کی اونٹنی مختلف محلوں ٗبستیوں ٗ اورمختلف قبائل کے مساکن سے گذرتی ہوئی آگے بڑھتی جارہی تھی…راستے میں لوگوں کابڑاجمعِ غفیرتھا،ایسے میں بارباربہت سے لوگ فرطِ عقیدت اورجذبات کی شدت کی وجہ سے آگے بڑھ کرآپؐ کی اونٹنی کی مہارتھام لیتے ،اوراسے روکنے کی کوشش کرتے…تب آپؐ بڑی شفقت سے باربارانہیں مخاطب کرتے ہوئے یوں ارشادفرماتے: دَعُوھَا فَاِنّھَا مَأمُورَۃ … یعنی’’اسے چھوڑدو،یہ تواللہ کے حکم سے چل رہی ہے…‘‘ آخرمسلسل چلتے چلتے ایک مقام پرپہنچ کراونٹنی رک گئی ،اورپھرکچھ دیراِدھراُدھردیکھنے کے بعدبیٹھ گئی،یہ بعینہٖ وہی جگہ تھی جہاں آج مسجدِنبوی آبادہے…اوریہی اُس معززترین خاندان ’’بنونجار‘‘کامحلہ تھا۔ اس یادگارترین موقع پراگرچہ وہاں مدینہ میں (جس کانام اُس وقت یثرب تھا)سبھی لوگوں نے اپنے محبوب ترین مہمان یعنی رسول اللہ ﷺ کیلئے اپنے گھروں کے ٗ نیزاپنے دلوں کے دروازے کھول رکھے تھے،ہرکوئی دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ہوئے تھا…لیکن آپؐ کی اونٹنی چلتے چلتے جب خودہی ایک جگہ رک گئی ،اورپھراسی جگہ بیٹھ بھی گئی ،تواب ظاہرہے کہ اس مقام پرسب سے قریب ترین جوگھرتھا،اسی گھرکے مکینوں کاہی اب سب سے بڑاحق تھا… اوروہ گھرجس کسی کاتھا،اس خوش نصیب ترین انسان کانام تھا’’ابوایوب انصاری ‘‘، تب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا…قدرت ان پراتنی مہربان ہوگئی تھی،اللہ کی طرف سے انہیں یہ اتنابڑااعزازاوراتنی بڑی خوشی نصیب ہوئی تھی…گویاان کی توقسمت ہی جاگ اٹھی تھی۔ چنانچہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑی ہی بیتابی کے ساتھ لپکے،رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،انتہائی والہانہ اندازمیں خوش آمدیدکہا،نیزآپؐ کاجوکچھ مختصر سامان تھالپک کراسے اٹھایا…اوردیوانہ واروہ سامان لئے ہوئے اپنے گھرکے دروازے کی طرف چل دئیے…گویادنیابھرکاکوئی قیمتی ترین خزانہ مل گیاہو،اورانہیں یہ اندیشہ ہوکہ کہیں یہ خزانہ مجھ سے چھن نہ جائے…اس لئے بہت جلدی اورفوراًسے پیشتراس خزانے کولے جاکربحفاظت اپنے گھرمیں چھپادیاجائے…یہی کیفیت اس وقت حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ہورہی تھی۔ ٭…حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاگھردومنزلہ تھا،چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قیام کیلئے گھرکا بالائی حصہ خالی کرنے کافیصلہ کرلیا،تاکہ خودمیاں بیوی دونوں نیچے رہیں ،اورآپؐ بالائی منزل پررہیں …ادب کاتقاضابھی یہی تھاکہ آپؐ اوپررہیں ، نیزیہ بات بھی پیشِ نظرتھی کہ یہ دونوں میاں بیوی اگراوپررہیں گے تووہاں اٹھتے بیٹھتے اورچلتے پھرتے ان کے قدموں کی آوازنیچے آئیگی ٗیوں آپؐ کے آرام میں خلل واقع ہوگا، نیزشایدکچھ گردوغباربھی نیچے گرے جوآپؐ کیلئے پریشانی کاسبب بنے گا…(کیونکہ اُس دورمیں مکانات کچے تھے ،لہٰذااس چیزکااندیشہ تھا) چنانچہ ان دونوں میاں بیوی نے رسول اللہ ﷺ کو جب اس بارے میں مطلع کیاتوآپؐ نے جواب میں فرمایاکہ میرے لئے نیچے رہناہی زیادہ مناسب ہوگا،ساتھ ہی یہ وجہ بھی بیان فرمائی کہ میرے پاس توبکثرت لوگوں کی آمدورفت کاسلسلہ رہے گا،لہٰذامیرے لئے نیچے ہی قیام بہتررہے گا(کیونکہ ہمہ وقت آتے جاتے ملاقاتیوں کیلئے اوپرآناجانامشکل ہوگا،نیزگھروالوں کیلئے بھی یہ چیزدشواری کاسبب بنے گی) اس پرابوایوب ؓ اورام ایوبؓ دونوں نے رسول اللہ ﷺ کی خواہش کااحترام کیااوردونوں اوپرہی رہے۔ جب رات ہوئی ،رسول اللہ ﷺ آرام فرمانے لگے،تب یہ دونوں میاں بیوی بھی آپؐ سے رخصت لے کراوپرچلے آئے،اورآرام کی غرض سے لیٹ گئے،لیکن ابھی تھوڑی ہی دیرگذری تھی کہ ابوایوبؓ اٹھ کربیٹھ گئے،اورنہایت ہی پریشانی کے عالم میں اپنی اہلیہ محترمہ کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے’’ام ایوب!یہ ہم نے کیاکیا؟رسول اللہ ﷺ نیچے اورہم اوپر؟ہم یہاں اوپرچلتے پھرتے رہیں …جبکہ رسول اللہ ﷺ نیچے؟ اس کامطلب تویہ ہواکہ اب ہماراچلناپھرنااٹھنابیٹھنا…سب رسول اللہ ﷺ کے اوپرہوگا…؟اوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف توآسمانوں سے وحی آتی ہے،فرشتے آتے ہیں ، لہٰذاجس ہستی کارشتہ آسمان والوں سے ہو…اسے توضروراوپرہی ہوناچاہئے،ہم اوپر کس طرح رہ سکتے ہیں ؟‘‘ یہی باتیں سوچ کریہ دونوں میاں بیوی انتہائی پریشان ہوگئے،ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیاکہ اب کیاکریں ؟ آخردونوں ایک کونے میں چلے گئے،جہاں انہیں یقین تھاکہ اس جگہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اوپرنہیں ہوں گے،تمام رات دونوں اسی طرح اس کونے میں دبکے پڑے رہے،اگرکبھی کسی ضروری کام سے چلناپڑتاتوکمرے کے درمیان میں چلنے کی بجائے کونوں میں دیوارکے ساتھ چپک چپک کرچلتے…تمام رات اسی کیفیت میں گذر گئی۔ جب صبح ہوئی توابوایوب انصاریؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،اوربڑی ہی بیتابی کے ساتھ عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!اللہ کی قسم ،آج رات تولمحہ بھرکیلئے بھی نہ تومیں ہی آنکھ جھپک سکا،اورنہ ہی اُم ایوب‘‘ آپؐ نے حیرت سے دریافت فرمایاکہ’’کیاوجہ ہوگئی؟‘‘ ابوایوبؓ نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!ہم اوپر…آپ نیچے …یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ تب آپؐ نے فرمایا’’ ھَوِّن عَلَیکَ یَا أبا أیّوب! اِنّہ أھوَن عَلینا أن نکونَ فِي السُّفلِ ، لکثرَۃِ من یغشانا مِن النّاس ۔ یعنی’’اے ابوایوب!آپ اس قدرفکرمندنہوں ، میرے لئے توبس یہی بہترہے کہ میں یہیں نیچے ہی رہوں ،کیونکہ میرے پاس توبکثرت ملاقاتی آتے جاتے رہیں گے‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ ارشادِگرامی سننے کے بعدحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل کی ،اورمطمئن ہوگئے…شب وروزگذرتے رہے…حتیٰ کہ ایک بارایساہواکہ جب سردی خوب عروج پرتھی،سخت ٹھنڈی اورطوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ،تب ایک رات اچانک ان کا مٹکاکسی طرح ٹوٹ گیا،پانی تیزی کے ساتھ بہنے لگا، اورہرطرف پھیل گیا(چونکہ اُس دورمیں مکانات کچے تھے،اوراس قدرمعیاری اورمضبوط بھی نہیں تھے کہ جس طرح موجودہ دورمیں ہواکرتے ہیں ،لہٰذا)اب ا نہیں یہ اندیشہ ہونے لگاکہ یہ پانی نیچے رسول اللہ ﷺ پرنہ ٹپکنے لگے…یایہ کہ بہتاہوانیچے نہ پہنچ جائے…یوں آپؐ کیلئے یہ چیزبڑی زحمت کاباعث بن جائیگی… دونوں میاں بیوی کومحض ایک ہی لحاف میسرتھا،جسے وہ دونوں ہی اوڑھتے تھے،ایسے میں انہیں وہ بہتاہواپانی صاف کرنے کیلئے فوری طوری پرگھرمیں کوئی چیزنہیں ملی…لہٰذاوہ دونوں پریشانی میں جلدی جلدی اپنے اسی لحاف سے پانی خشک کرنے لگے،انتہائی شدیدسردی کی رات …پھریہ کہ مٹکابھی ٹوٹ گیا،جس کی وجہ سے پانی پھیل گیا،یوں سردی مزیدبڑھ گئی،پانی بھی ضائع ہوگیا،اُس دورمیں پانی کاحصول کوئی آسان کام نہیں تھا،بڑی تگ ودواورجدوجہدکے بعدپانی نصیب ہواکرتاتھا…اس کے علاوہ اصل فکراس بات کی تھی کہ یہ پانی اب کہیں بہتاہوایاٹپکتاہوانیچے نہ پہنچ جائے…مزیدیہ کہ اس قدرشدیدسردی میں پانی صاف کرنے کی تکلیف…نیزیہ کہ لحاف بھی فقط ایک ہی میسرتھا، وہ بھی بھیگ چکا اس پانی کوخشک کرنے کی کوشش میں …اب کیاہوگا؟باقی رات کس طرح کذرے گی؟سردی سے حفاظت کیسے ہوگی؟ یہ دونوں میاں بیوی توروزِاول سے ہی اسی تشویش میں مبتلاتھے کہ بالائی منزل پرہماری رہائش ٗ جبکہ رسول اللہ ﷺ نیچے تشریف فرماہیں …یہ کسی طرح مناسب نہیں …دل نہیں مانتا…اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس بارے میں تسلی دی تھی اورمطمئن کرنے کی کوشش بھی فرمائی تھی…لیکن بہرحال ان دونوں میاں بیوی (ابوایوب اورام ایوب)کی طرف سے آپؐ کیلئے ادب واحترام کی یہ انتہاء تھی…ظاہرہے کہ یہ دونوں خوش نصیب ترین افراد ’’باادب بانصیب‘‘کے پوری طرح مصداق تھے،اسی لئے توخالقِ کائنات کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کے اولین میزبان کے طورپرانہی دونوں میاں بیوی کومنتخب کیاگیاتھا… چنانچہ یہ دونوں توپہلے دن سے ہی اوپررہائش پرمطمئن نہیں تھے،مزیدیہ کہ اس رات پیش آنے والایہ واقعہ …جوکہ ان کیلئے بڑی پریشانی کاباعث بنا…لہٰذاجب صبح ہوئی تو ابوایوب انصاریؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،اورنہایت ہی ادب کے ساتھ عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!آپ کاحکم سرآنکھوں پر…لیکن …ہمارادل کسی صورت اس بات کوقبول نہیں کرتاکہ ہم میاں بیوی اوپرہوں اورآپ نیچے…‘‘ اس باررسول اللہ ﷺ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ کی یہ جوکیفیت ملاحظہ فرمائی توآپؐ صورتِ حال کوسمجھ گئے،لہٰذا ازراہِ شفقت ان کی اس گذارش کوقبول کرتے ہوئے آپؐ بالائی منزل پرمنتقل ہوگئے،جبکہ وہ دونوں میاں بیوی نیچے چلے آئے۔ ٭…رسول اللہ ﷺ نے تقریباًسات ماہ مسلسل اپنے میزبان حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرمیں قیام فرمایا،حتیٰ کہ اس دوران ان کے گھرسے متصل جس جگہ ہجرت کے موقع پرآپؐ کی اونٹنی آکربیٹھ گئی تھی …اسی مقام پرمسجدِنبوی کی تعمیرمکمل ہوگئی،نیزمسجد سے متصل ہی رسول اللہ ﷺ کیلئے مستقل رہائش کاانتظام بھی کرلیاگیا…لہٰذاآپؐ ابوایوب انصاریؓ کے گھرسے اب وہاں منتقل ہوگئے…لیکن اب بھی رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی ہی تھے…کتنے اچھے … اورکس قدرمبارک تھے یہ دونوں پڑوسی… رسول اللہ ﷺ جب تک ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرمیں مقیم تھے…ابوایوبؓ تب بھی ہرلمحہ اورہرآن…آپؐ پردل وجان سے فداہوئے جاتے تھے…جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی ابوایوبؓ کے ساتھ انتہائی شفقت ومحبت کامعاملہ فرمایاکرتے تھے…دونوں طرف سے ہی یہی سلسلے چلتے رہے…اس کے بعداب جبکہ آپؐ وہاں سے منتقل ہوگئے… تب بھی دونوں طرف یہی تعلقِ خاطربرقراررہا…گھرتوجداجداہوگئے،لیکن محبتیں اورقربتیں اسی طرح قائم ودائم رہیں … ٭…انہی دنوں ایک بارایساہواکہ سخت گرمی کے دنوں میں عین دوپہرکے وقت جب خوب گرم لوچل رہی تھی،، جھلسادینے والی گرم ہواؤں کی وجہ سے سبھی لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہوئے تھے،گلی کوچوں میں سناٹاچھایاہواتھا،ایسے میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھرسے نمودارہوئے، اورمسجدنبوی کے آس پاس گھومنے لگے،کچھ ہی دیرگذری تھی کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی وہاں پہنچ گئے،انہیں تعجب ہواکہ اس قدر شدیدگرمی میں یہاں اس وقت اکیلئے یہ کیاکررہے ہیں ،نیزانہیں حضرت ابوبکرؓ کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثاربھی محسوس ہوئے…تب انہوں نے دریافت کیا’’اے ابوبکر!اس وقت آپ یہاں کیاکررہے ہیں ؟‘‘ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیاـ’’مجھے بھوک نے بہت زیادہ ستارکھاہے، کچھ سمجھ میں نہیں آیا،تومیں یہاں چلاآیا‘‘ یہ سن کرحضرت عمرؓ نے فرمایا’’میرابھی بالکل یہی حال ہے‘‘ کچھ ہی دیرگذری تھی کہ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لائے،اوران دونوں کواس وقت وہاں دیکھاتووجہ دریافت فرمائی…ان دونوں نے وہی وجہ بتادی کہ ’’بھوک نے ستارکھاہے‘‘ اس پرآپؐ نے فرمایا’’میری بھی یہی کیفیت ہے‘‘ اس کے بعدآپؐ نے ان دونوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’چلو،تم دونوں میرے ساتھ چلو…‘‘ اورپھریہ تینوں حضرات چل دئیے ،سامنے چندقدم کے فاصلے پرہی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاگھرتھا،وہاں پہنچ کررسول اللہ ﷺ رک گئے،اوران کے دروازے پردستک دی،جس پران کی اہلیہ ام ایوب ؓ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا’’مرحبااے اللہ کے نبی ‘‘ آپؐ نے دریافت فرمایا’’ابوایوب کہاں ہیں ؟‘‘ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے گھرسے متصل ہی عقبی حصے میں اپنے کھجوروں کے درختوں میں کچھ کام کاج کررہے تھے،انہوں نے آپؐ کی آوازسنی تووہ اپناکام چھوڑکرفوراًہی حاضرِخدمت ہوگئے،آپ ؐ کو ٗ نیزآپؐ کے دونوں ساتھیوں کووہاں دیکھ کرنہایت مسرت کااظہارکرتے ہوئے یوں کہنے لگے’’مرحبااے اللہ کے نبی ، اورمرحبا اے اللہ کے نبی کے ساتھیو‘‘ اس کے بعدحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے تینوں معززترین اورگرامی قدر مہمانوں کوگھرمیں بٹھایا،اورخوداپنے انہی کھجوروں کے درختوں کی طرف چل دئیے،اورپھر فوراًہی کھجوروں کاایک پوراگچھادرخت سے کاٹ کرلے آئے،جس میں ’’تمر‘‘یعنی خشک کھجوریں بھی تھیں ،’’رُطب‘‘ یعنی تازہ بھی تھیں ،اور’’بُسر‘‘یعنی کچھ کچی پکی درمیانی قسم کی بھی تھیں ،اوریہ پوراگچھامعززمہمانوں کے سامنے پیش کردیا…یہ منظردیکھ کررسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ابوایوب!بس کچھ خشک کھجوریں توڑلی ہوتیں …یہ پوراگچھاتوڑلانے کی ضرورت تونہیں تھی‘‘اس پرانہوں نے عرض کیا’’بس …میراجی چاہاکہ میں یہ پوراگچھاہی پیش کردوں ‘‘اورپھرمزیدعرض کیا’’دیکھئے میں ابھی آپ حضرات کیلئے بکری بھی ذبح کرنے والاہوں ‘‘ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اگربکری ذبح کرناہی چاہتے ہوتودیکھناکوئی دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا‘‘(۱) اس کے بعدابوایوب انصاری ؓ اوران کی اہلیہ محترمہ ام ایوبؓ نے جلدی جلدی بکری ذبح کرکے اس کاگوشت ہنڈیامیں چڑھادیا…اس کاکچھ سالن تیارکیا،کچھ بھون لیا،اسی دوران ساتھ ساتھ ہی ام ایوب ؓ نے کچھ روٹیاں بھی پکالیں … اورجب یہ کھانا پیش کیاگیا…تورسول اللہ ﷺ نے انتہائی مسرت کااظہارفرمایا،گوشت کاسالن بھی …کچھ بھناہواگوشت بھی…تازہ تازہ گرم روٹیاں بھی…رنگارنگ مختلف انواع واقسام کی کھجوروں کاپوراگچھابھی… تب اس موقع پررسول اللہ ﷺ نے کھانے کی جانب غورسے دیکھا…اورپھرکھاناشروع کرنے سے پہلے آپؐ نے ایک روٹی لی،اس پرگوشت کاایک ٹکڑارکھا،اورابوایوبؓ کو پکڑاتے ہوئے فرمایا’’ابوایوب!جائیے ذرہ جلدی سے یہ فاطمہ کودے آئیے،کیونکہ کتنے ہی دن گذرچکے ہیں کہ اس نے ایسالذیذکھانانہیں کھایا…‘‘(۱) اس کے بعدمہمانوں نے خوب سیرہوکرکھاناکھایا،کھانے سے فراغت کے بعدرسول اللہ ﷺ فرمانے لگے’’تازہ روٹیاں ٗگوشت ٗ انواع واقسام کی کھجوریں …‘‘اوراس کے ساتھ ہی آپؐ کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے…اورپھرآپؐ نے مزیدفرمایا’’اللہ کی قسم!یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے روزتم سے سوال کیاجائے گا،لہٰذاجب کبھی تمہیں ایسی نعمت نصیب ہو،اورتم اس کی طرف ہاتھ بڑھانے لگو ٗ تویوں کہو’’بسم اللہ‘‘ اور جب کھاچکو ٗتوکہو’’الحمدللہ‘‘۔(۲) حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کویوں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے فوری بعدآپؐ کی مہمان نوازی کاجوشرف حاصل ہوا…ظاہرہے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی… اللہ کے حبیب ٗ خیرالبشر ٗ افضل الرسل ٗ سیدالاولین والآخرین ٗ رحمۃ للعالمین ٗ رسول اکرم ٗﷺ ٗکی یہ میزبانی یقینابہت ہی عظیم اعزازتھا ٗ جس کیلئے خالقِ ارض وسماء کی طرف سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کومنتخب کیاگیاتھا۔ اسی کیفیت میں مدینہ میں وقت گذرتارہا،شب وروزکایہ سفرجاری رہا،حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرگیا…آپؐ ہمیشہ تادمِ آخراپنے صحابی ٗ نیزاپنے اولین میزبان حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے انتہائی مسرورومطمئن رہے۔
Top