حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ - حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران ہمیشہ نہایت ذوق وشوق ٗ توجہ اورلگن کے ساتھ آپؐ کی خدمت ٗ نیزآپؐ کی صحبت میں رہتے ہوئے علمی استفادہ اورکسبِ فیض میں مشغول ومنہمک رہے،نیزآپؐ کے مبارک دورمیں جتنے بھی غزوات پیش آئے ٗہرغزوے کے موقع پرہمیشہ پیش پیش رہے۔ اورپھراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرحق وباطل کے درمیان پیش آنے والے ہرمعرکے میں ان کی شرکت کایہ سلسلہ عہدِنبوی کے بعدخلفائے اربعہ کے دورمیں بھی جاری رہا، اور پھرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں بھی ان کی یہی کیفیت رہی… چنانچہ دینِ برحق کی سربلندی اورطاغوتی قوتوں کے خلاف لشکرکشی کے موقع پران کی مسلسل شرکت کے اس طویل سلسلے کاآخری واقعہ یہ تھاکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران جب سلطنتِ روم کے دارالحکومت’’ قُسطَنطِنیہ‘‘(۱)پرحملے کی غرض سے جب لشکرتیارکیاگیا…اُس وقت حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کافی عمررسیدہ اور کمزور ہوچکے تھے،ان کی عمراسّی سال سے تجاوزکرچکی تھی،مگراس کے باوجودہمت مضبوط تھی…اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے…طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کیلئے…ان کاحوصلہ بلندتھا،اورعزم پختہ تھا…لہٰذااپنی اس جسمانی کمزوری کے باوجودوہ بڑے ہی جذبے اور جوش وخروش کے ساتھ اس لشکرکے ہمراہ روانہ ہوگئے… لیکن یہ لشکرجب اپنی منزلِ مقصودکی جانب روانہ ہواتواس طویل سفرکی صعوبتوں ٗنیز اس عمرمیں طبعی عوارض اورکمزوری کی وجہ سے ان کی طبیعت ناسازہونے لگی،اس موقع پر لشکر کے سپہ سالار ودیگرذمہ دارافرادمستقل ان کی مزاج پرسی ٗتیمارداری ٗاورخبرگیری کرتے رہے… آخراسی کیفیت میں راستے میں ہی ایک روزان کی طبیعت زیادہ ناسازہوگئی، تب انہوں نے لشکرکے سپہ سالارودیگراپنے تمام ساتھیوں کوکومخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’میری طرف سے اس لشکرمیں موجودتمام سپاہیوں کوسلام پہنچانا،اوریہ پیغام بھی پہنچاناکہ: ’’ابوایوب کی طرف سے تمہاری لئے یہ وصیت ہے کہ منزلِ مقصودپرپہنچنے کے بعددشمن کے خلاف خوب ڈٹ کرلڑیں ٗ نیزیہ کہ اگروہ وقت آنے سے قبل ہی میری روح پروازکرگئی تو اس جنگ کے موقع پرمجھے اٹھاکرمیدانِ جنگ میں لے جائیں ،اوروہاں مجھے ضرور اپنے ہمراہ ہی رکھیں ،اورپھرجنگ کے خاتمے پرمجھے وہاں قُسطَنطینیہ شہرکی فصیل کے پہلومیں دفن کریں ‘‘۔ یہ تھے آخری الفاظ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے،ان آخری الفاظ کے ساتھ ہی انہوں نے آخری ہچکی لی،اوراپنی جان اپنے اللہ کے سپردکردی… چنانچہ سپاہیوں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اس وصیت پرعمل کرتے ہوئے ان کی میت کواس سفرکے دوران ٗاورپھرمنزلِ مقصودپرپہنچنے کے بعداس تاریخی اوریادگار معرکے کے موقع پرمیدانِ جنگ میں بھی مسلسل اپنے ہمراہ ہی رکھا…کیونکہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی یہی خواہش تھی ،اوریہی جذبہ تھا…کہ بہرصورت اس معرکے میں شریک ہوں …موت کاوقت تواللہ کی طرف سے مقررہے،یہی سوچ کروہ اس معرکے میں شرکت کی غرض سے عازمِ سفرہوئے تھے،اب اگرموت کاوہ طے شدہ وقت منزل پرپہنچنے سے پہلے ہی آگیا…تواللہ کی مرضی…لہٰذاپھراس معرکے میں جان نکلنے کے بعدہی شرکت کی جائے گی…لیکن کسی صورت اس معرکے سے پیچھے رہناانہیں قبول نہیں تھا۔ (یعنی شرکت کاعزم کررکھاتھا،جذبہ صادق تھااورنیت خالص تھی،موت کامقرروقت وہاں پہنچنے سے پہلے ہی آگیا،توبغیرجان کے ہی شرکت سہی…) منزلِ مقصودپرپہنچنے کے بعداسلامی لشکرکے ذمہ داروں نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی وصیت کے مطابق دورانِ جنگ ہرمرحلے پران کے جسداطہرکواپنے ہمراہ ہی رکھا(یہ ان کی کرامت تھی کہ وفات کے بعداتنے دن گذرجانے کے باوجودان کاجسم بدستوردرست حالت میں رہا) اورپھرجنگ کے اختتام پران کی وصیت کے مطابق انہیں قُسطَنطینیہ (استنبول) شہرکی فصیل کے ساتھ سپردِخاک کردیاگیا۔ یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ آخری سانس تک اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرکوشاں رہے،اوراسی مقصدکی خاطرمنزلِ مقصودکی جانب سفرکے دوران ۵۲ھ؁میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے جب ان کی عمراسّی برس سے متجاوزہوچکی تھی۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ کے باشندے تھے،جب بھی شہرمدینہ کاتذکرہ ہوگاتورسول اللہ ﷺ کاتذکرہ بھی ہوگا،نیزہجرت کے موقع پرآپؐ کی مدینہ تشریف آوری ٗ اورپھرحضرت ابوایوب انصاریؓکے گھرمیں آپؐ کے قیام کاتذکرہ بھی ہوگا…کہاں شہرمدینہ…؟کہاں ہزاروں میل دورقُسطَنطینیہ (استنبول) ؟کہاں مدینہ میں خاندان بنونجارکاوہ محلہ ،اوراس محلے میں وہ نخلستان،اوراس نخلستان میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ کاوہ چھوٹاساسیدھاسادھاساگھر…جہاں خیرالبشر ٗامام الأنبیاء والمرسلین ٗ رحمۃ للعالمین ٗ رسول اکرم ﷺ مہمان بن کرتشریف لائے تھے…اورپھراس گھرمیں ان دونوں میاں بیوی کی طرف سے آپؐ کی خدمت کے سلسلے میں وہ جذباتی انداز…وہ معصومانہ باتیں …جب سخت سردی کے موسم میں پانی کامٹکاٹوٹ گیاتھا…پانی بہہ رہاتھا،ایک ہی رضائی تھی ،جس سے یہ دونوں میاں بیوی وہ پانی صاف کرتے رہے…خودرات بھرتکلیف میں رہے،مگرجان سے پیارے اپنے اس مہمان( ﷺ )کوکوئی تکلیف نہیں پہنچنے دی…اورجب ایک باررات بھردونوں میاں بیوی کونے میں دبکے رہے … یہ سوچ کرکہ ہم اوپراوررسول اللہ ﷺ نیچے…؟یہ کیسے ہوسکتاہے؟ وہ چھوٹاساگھرتومدینہ کے نخلستان میں تھا(جہاں اب مسجدِنبوی پوری آب وتاب کے ساتھ آبادہے) مگر…وہاں سے ہزاروں میل دوراستنبول میں یہ اپنی آخری آرامگاہ (جوکہ بحکمِ الٰہی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی)میں ابدی نیندسورہے ہیں …یقینایہ اسی جذبے کاکرشمہ ہے جواللہ کے دین کی سربلندی کی خاطران کے دل میں موجزن تھا…ان کایہی مبارک جذبہ آج بھی اہلِ ایمان کودعوتِ غوروفکردے رہاہے… اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔
Top