حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ - حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کااصل نام زیدبن سہل تھا،لیکن یہ اپنی کنیت (ابوطلحہ)سے معروف ہوگئے،ان کاتعلق مدینہ کے مشہورا ور معزز ترین خاندان ’’بنونجار‘‘سے تھا۔ یہ اُس دورکی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کاواقعہ ابھی پیش نہیں آیاتھا،اُن دنوں ایک روزانہیں یہ خبرملی کہ خاندان بنونجارکی ایک معززخاتون جس کانام رُمیصاء بنت ملحان النجاریہ تھاٗاورجوکہ اُم سُلَیم کی کنیت سے معروف تھی ٗ اس کاشوہرکسی جنگ کے موقع پرماراگیاہے۔ اُس دورمیں (جسے زمانۂ جاہلیت کے نام سے یادکیاجاتاہے)قبائلی جنگوں کے سلسلے چلتے رہتے تھے،معمولی باتوں پراختلاف اورجھگڑااورپھرخونریزی …یہی ان کاروزمرہ کا معمول تھا… کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑاکبھی گھوڑاآگے بڑھانے پہ جھگڑا اورپھریہی معمولی جھگڑے بڑی تباہ کن جنگوں کی شکل اختیارکرلیاکرتے ،یہ جنگیں درنسل درنسل عرصۂ درازتک جاری رہتیں …جس کے نتیجے میں بڑی تعدادمیں لوگ مارے جاتے،عورتیں بیوہ ہوجاتیں ، بچے یتیم ہوجاتے…یوں اس معاشرے میں مردوں کی تعدادکم ٗجبکہ عورتوں کی تعدادزیادہ تھی،اب ان بیوہ عورتوں اوریتیم بچوں کی کفالت کاکیابنے گا؟ ان کی سرپرستی کون کرے گا؟ اوران کاٹھکانہ کہاں ہوگا…؟یہی وہ مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے اس معاشرے میں ان بیوہ عورتوں کے ساتھ شادی کاعام رواج تھااور یہ سلسلہ ان کے ہاں چلتارہتاتھا…کہ کوئی ماراگیا…اس کی بیوہ کے ساتھ کسی اورنے شادی کرکے اسے اوراس کے یتیم بچوں کواپنے گھرمیں بسالیا… جن دنوں اس معززخاتون اُمِ سُلیم کاشوہرماراگیااوریہ خبرابوطلحہ تک بھی پہنچی …یہ تقریباًاُن دنوں کی بات تھی کہ جب دعوتِ حق کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں نبوت کے گیارہویں سال حج کے موقع پرمنیٰ میں ’’یثرب‘‘یعنی مدینہ سے تعلق رکھنے والے چھ افرادمشرف باسلام ہوئے تھے،اورپھراس کے اگلے سال یعنی نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پرمنیٰ میں ہی آپؐ کی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مدینہ سے تعلق رکھنے والے بارہ افرادنے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تھی،نیز اس موقع پرانہوں نے آپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی تھی ،جسے ’’بیعتِ عقبہ اُولیٰ‘‘ کہاجاتاہے۔ اس موقع پرانہوں نے گذارش کی تھی کہ ’’اے اللہ کے رسول!آپ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کوہمارے ساتھ مدینہ روانہ فرمائیے،تاکہ وہ وہاں ہمیں اللہ کے دین کی تعلیم دے سکے‘‘ اس پرآپؐ نے اپنے نوجوان صحابی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کوان کے ہمراہ مدینہ روانہ فرمایاتھا،یوں حضرت مصعب ؓ رسول اللہ ﷺ کے اولین سفیراورنمائندے کے طورپر ٗ نیزمعلم ومربی کی حیثیت سے مدینہ پہنچے تھے۔(۱) مدینہ پہنچنے کے بعدان کی محنت وکوشش اوردعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں اب وہاں بڑی سرعت کے ساتھ دینِ اسلام کی نشرواشاعت ہونے لگی تھی،دینِ اسلام ٗاورپیغمبرِ اسلام کے چرچے گھرگھرہونے لگے تھے،اوریوں بہت جلدمدینہ شہر’’لاالٰہ الاللہ‘‘کے نورسے جگمگانے لگاتھا… چنانچہ مدینہ شہرمیں وہ لوگ جوکہ اُس دورمیں حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی ان دعوتی کوششوں کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے،انہی میں اُم سُلیم بھی شامل تھیں ،جنہوں نے اپنے آباؤاجدادکے دین یعنی کفروشرک سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے دینِ برحق قبول کرلیاتھا…جبکہ ان کاشوہربدستورپرانے دین پرہی قائم تھا۔ اورپھرانہی دنوں کسی جنگ کے موقع پراُم سُلیم کے شوہرکی موت واقع ہوگئی تھی،اورعام رواج کے مطابق اب اسے بھی اپنے لئے ٗنیزاپنے بچوں کیلئے کسی سہارے کی ضرورت تھی،چنانچہ اب بہت سے لوگ اس طرف متوجہ ہوئے،جن میں ابوطلحہ بھی شامل تھے۔ ابوطلحہ نے اس خیال سے کہ کہیں مجھ سے پہلے ہی کوئی اورشخص اس سلسلے میں اُ م سُلیم سے بات طے نہ کرلے…فیصلہ کیاکہ مجھے اس بارے میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے… اور پھر جلدہی ایک روزوہ اُم سُلیم کے گھرکی طرف چل دئیے…اس یقین کے ساتھ کہ اُم سُلیم انہیں دوسرے تمام لوگوں کے مقابلے میں ترجیح دے گی،کیونکہ اس معاشرے میں ان کی خاص حیثیت تھی،خوشحال بھی بہت تھے،شجاعت وبہادری میں بھی بے مثال تھے،مزیدیہ کہ گھڑسواری ٗ تیراندازی ٗ ودیگرفنونِ حرب وضرب میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی… البتہ راستے میں چلتے چلتے انہیں یادآیاکہ اُمِ سُلیم تواب اپنامذہب تبدیل کرچکی ہے،مسلمان ہوچکی ہے…جبکہ میں آباؤاجدادکے دین پرہی قائم ہوں …لہٰذاکہیں ایسانہوکہ اس وجہ سے وہ اس رشتے کوٹھکرادے ،اورمیرے ساتھ شادی سے انکارکردے…لیکن جلدہی وہ یہ سوچ کرمطمئن ہوگئے کہ اُمِ سُلیم کے قبولِ اسلام کے بعدبھی اس کاشوہرتوبدستورپرانے دین پرہی قائم رہاتھا،اوردونوں میں میاں بیوی کارشتہ برقرارتھا…لہٰذامیرے رشتے کووہ محض اس وجہ سے کیوں ٹھکرائیگی؟ انہی سوچوں میں گم ابوطلحہ آخراُم سُلیم کے گھرجاپہنچے،دروازہ کھٹکھٹایا،تعارف کے بعداندر آنے کی اجازت طلب کی،اس وقت اتفاقاًگھرمیں اُمِ سُلیم کانوعمربیٹااَنس بھی موجود تھا۔(۱) سلام ودعاء اوررسمی گفتگوکے بعدابوطلحہ نے آمدکامقصدبیان کیا…جس پراُم سُلیم نے جواب دیا’’ابوطلحہ!آپ جیسے اچھے انسان کارشتہ ٹھکرانامناسب تونہیں ہے،لیکن… بات یہ ہے کہ ہمارادین جداجداہے ،لہٰذایہ رشتہ قبول کرنامیرے لئے ممکن نہیں ہے‘‘ ابوطلحہ نے یہ خلافِ توقع جواب سناتویوں کہنے لگے’’اُم سُلیم!انکارکی یہ توکوئی وجہ نہوئی‘‘ اس پراُمِ سُلیم نے کہا’’پھرآپ کیاسمجھتے ہیں ،میری طرف سے انکارکی کیاوجہ ہے؟‘‘ ابوطلحہ بولے’’انکارکی وجہ یقینایہی ہوسکتی ہے کہ شایدکوئی مجھ سے قبل تمہیں زیادہ سونے چاندی کی پیشکش کرچکاہے‘‘ ابوطلحہ کی زبانی یہ بات سنتے ہی اُمِ سُلیم برجستہ بولیں ’’ابوطلحہ!میں اللہ کوگواہ بناکرکہتی ہوں کہ اگرآپ مسلمان ہوجائیں تومیں بغیرکسی مہرکے ہی آپ کارشتہ منظوکرلوں گی…آپ کاقبولِ اسلام ہی میرے لئے مہرہوگا…اوربس‘‘ تب ابوطلحہ کہنے لگے’’یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے آباؤاجدادکے دین سے روگردانی اختیار کرلوں …؟‘‘ اس پراُم سُلیم مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’’ابوطلحہ !کیاآپ نہیں جانتے کہ جس خداکی آپ عبادت کرتے ہیں ٗ اورآپ سے پہلے آپ کے آباؤاجدادبھی جس کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں …آپ کاوہ خداتومحض اس زمین سے اُگاہواہے (۱) ذرہ سوچئے …کیاآپ کوایسے خداکی عبادت کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی کہ جسے آپ خودکسی درخت کے تنے سے کاٹ کرتیارکرتے ہیں …جبکہ اسی کے ساتھ کی باقی لکڑی کوچولہے میں جھونک کراس پرکھاناپکالیتے ہیں …؟‘‘ اُم سُلیم کی زبانی یہ عجیب وغریب بات سن کرابوطلحہ پہلی باراس بارے میں عجیب سی شرمندگی محسوس کرنے لگے،اورپھرقدرے توقف کے بعدکہنے لگے’’تمہاری یہ بات توبالکل درست ہے،حقیقت تویہی ہے‘‘ اورپھرکچھ دیرغوروفکرکے بعداُم سلیم سے دریافت کیا’’اگرمیں مسلمان ہوناچاہوں تومجھے کیاکرناہوگا؟ کہاں جاناہوگا؟ اُم سُلیم نے جواب دیا’’آپ کوکہیں بھی جانے کی قطعاًضرورت ہی نہیں ،یہ کام توابھی اوریہیں ہوسکتاہے…بس آپ کویہ کرناہوگاکہ سچے دل سے اورخلوصِ نیت کے ساتھ کفروشرک سے ہمیشہ کیلئے توبہ کریں ،اپنی زبان سے’’ کلمۂ حق‘‘یعنی ’’أشہدأن لاالٰہ الاللہ، وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘پڑھیں ،اورپھرسیدھے اپنے گھرجاکراپنے اس بت کو توڑ ڈالیں جس کی آپ ٗاورآپ کے آباؤاجدادنسل درنسل عبادت کرتے چلے آرہے ہیں ‘‘۔ چنانچہ اُمِ سُلیم کی اس نصیحت پرعمل کرتے ہوئے ابوطلحہ نے ایساہی کیا،اسی وقت کلمۂ حق پڑھتے ہوئے مسلمان ہوگئے،اورپھرگھرپہنچتے ہی اپنے اس خاندانی بت کوتوڑکرپھینک دیا…نیزاس کے بعداُمِ سُلیم رضی اللہ عنہاکے ساتھ ان کی شادی بھی ہوگئی،تب مدینہ شہرمیں یہ بات مشہورہوگئی کہ اُمِ سُلیم ؓ نے اپنی شادی میں ’’مہر‘‘کے طورپرفقط یہ مطالبہ رکھاکہ ابوطلحہ مسلمان ہوجائیں ،ان کے ’’قبولِ اسلام‘‘کوہی اپنے لئے مہرقراردیا،اس کے سوااورکچھ مطالبہ نہیں کیا…حالانکہ اس موقع پرعورتیں بہت کچھ مانگاکرتی ہیں …لیکن اُم سُلیم نے کچھ بھی نہیں مانگا…یوں اس معاشرے میں کہ جہاں اُمِ سُلیم کوپہلے ہی کافی عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا…اب ان کی عزت ہمیشہ کیلئے مزیدبڑھ گئی… ٭…حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اب دینِ اسلام قبول کرنے کے بعدمدینہ میں حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی مجلس میں بڑی پابندی کے ساتھ حاضرہونے لگے،نہایت ذوق وشوق اورخوب توجہ وانہماک کے ساتھ دینی علم حاصل کرتے،مزیدیہ کہ ان کے ہمراہ مدینہ میں گلی گلی قریہ قریہ گھوم پھرکردینِ برحق کی نشرواشاعت کی خاطرشب وروزکوشاں وسرگرداں رہتے ،اپنامال ودولت ٗاپنی شہرت وحیثیت ٗ نیزاپنی تمامترتوانائیاں اور صلاحیتیں اب انہوں نے اسی مقصدکیلئے وقف کردیں ۔ ٭…نبوت کے بارہویں سال منیٰ میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پرجب اس بیعت میں شریک بارہ افرادکی طرف سے درخواست اورگذارش کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے اولین سفیر ٗنیزمعلم ومربی کی حیثیت سے حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کوان افرادکے ہمراہ مدینہ روانہ فرمایاتھا…چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعدان کی اس محنت وکوشش کے نتیجے میں …بتوفیقِ الٰہی…دینِ اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیلتاچلاگیاتھا… جس کانتیجہ یہ ہواکہ محض اگلے ہی سال یعنی نبوت کے تیرہویں سال حج کے موقع پرمدینہ سے حجاج کاجوقافلہ مکہ کی جانب روانہ ہوا ٗاس میں بہتّرافرادایسے تھے جوحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ برحق قبول کرچکے تھے، لہٰذا انہوں نے مکہ پہنچنے کے بعدمنیٰ میں ہی عقبہ کے مقام پررسول اللہ ﷺ سے خفیہ ملاقات ٗ نیزآپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی تھی(یعنی بیعتِ عقبہ ثانیہ)اورپھریہی وہ موقع تھاکہ جب ان حضرات نے مکہ میں نامساعدحالات کے پیشِ نظررسول اللہ ﷺ کواب مستقل طورپراپناآبائی شہرمکہ چھوڑکرمدینہ چلے آنے کی دعوت دی تھی…جس کے نتیجے میں ہجرتِ مدینہ کاانتہائی اہم ترین واقعہ پیش آیاتھا(جوکہ تاریخِ اسلام میں ہمیشہ کیلئے فیصلہ کن تبدیلی کانقطۂ آغازثابت ہواتھا)الغرض یہ خوش نصیب ترین افرادجواس تاریخی اورمبارک ترین بیعت کے موقع پرموجودتھے اورجنہوں نے آپ ﷺ کومدینہ چلے آنے کی دعوت دی تھی ٗ انہی میں حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ مزیدیہ کہ اس بیعت کے موقع پررسول اللہ ﷺ نے ان بہتّرافرادمیں سے بارہ افرادکو ’’نقیب‘‘مقررفرمایاتھا،یعنی مدینہ واپسی کے بعدوہاں دینِ اسلام اورمسلمانوں سے متعلق جو بھی معاملات تھے ٗ ان کی دیکھ بھال اورنگرانی کے فرائض سرانجام دیتے رہنا…چنانچہ یہ بارہ ’’نقباء‘‘جن کاانتخاب خودرسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا،ا ن میں حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ٭…اس کے کچھ ہی عرصے بعدجب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لے آئے …تب حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمیشہ آپؐ کی خدمت ٗ صحبت ومعیت اور کسبِ فیض میں پیش پیش رہنے لگے…آپؐ کے ساتھ انہیں انتہائی عقیدت ومحبت تھی ، جوکہ ان کے رگ وپے میں سرایت کرگئی تھی۔ ٭…ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدیعنی ۲ھ؁سے ہی مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلح لشکرکشی کاسلسلہ شروع ہوگیاتھاجس کے نتیجے میں مدنی زندگی میں متعدد غزوات کی نوبت آتی رہی،ایسے میں ہرغزوے کے موقع پرحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت ہمیشہ پیش پیش رہے اوربے مثال جرأت وشجاعت کا مظاہرہ کرتے رہے… بالخصوس ۳ھ؁میں تاریخی غزوۂ اُحدکے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے تھے،اورتب انہیں بڑی پریشانی کاسامناکرناپڑاتھا، ایسے میں ایک موقع ایسابھی آیاتھاجب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ محض گنتی کے چندافرادرہ گئے تھے ،جوکہ اس نازک ترین موقع پرآپؐ کی طرف سے مدافعت وحمایت کی خاطربڑی ہی بے جگری اورثابت قدمی کے ساتھ لڑتے رہے تھے…انہی مٹھی بھرافرادمیں حضرت ابوطلحہ انصاریؓ بھی شامل تھے،جواس موقع پردشمنوں کوآپؐ سے دوررکھنے کی خاطرمسلسل تیراندازی کرتے رہے ،حتیٰ کہ اُس روزان کے ہاتھوں میں پے درپے تین کمانیں ٹوٹیں ۔(۱) رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعدحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا آپؐ کے ساتھ ہمیشہ ہی جووالہانہ قرب اوردلی تعلق رہااس کااندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعلقِ خاطرمحض ان کی ذات تک ہی محدودنہیں تھا،بلکہ ان کے پورے گھرانے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بہت زیادہ شفقتوں اورعنایتوں کے سلسلے تھے۔ چنانچہ ان کاایک کم سن ’’ربیب‘‘( یعنی ان کی اہلیہ محترمہ اُم سُلیم کے پہلے شوہرسے بیٹا ) جو’’ابوعمیر‘‘کے نام سے معروف تھا،اس نے ایک چھوٹا سا پرندہ پال رکھاتھاجسے عربی میں ’’نُغیر‘‘کہاجاتاہے،یہ کم سن بیٹاہروقت اپنے اس پرندے کے ساتھ کھیلتارہتاتھااوراسے بہت زیادہ لاڈپیارکیاکرتاتھا…چنانچہ آپؐ جب بھی اسے دیکھتے تو اسے مخاطب کرتے ہوئے یوں دریافت فرمایاکرتے تھے : یا أبا عُمیر! ما فَعَلَ النُغَیر…؟یعنی’’اے ابوعمیر!تمہارے نُغیرکی کیاخبرہے…؟‘‘ اورپھر ایک روزاچانک وہ پرندہ مرگیا،جس پرابوعمیرانتہائی رنجیدہ اورہمہ وقت بجھا بجھا سا رہنے لگا…ایسے میں رسول اللہ ﷺ جب بھی اسے دیکھتے تواسے تسلی دیاکرتے اوراس کی دلجوئی کی کوشش کیاکرتے۔ اسی طرح ان (یعنی حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ )کے ایک ’’ربیب‘‘ جن کانام انس بن مالک(رضی اللہ عنہ)تھا،آپ ﷺ ان کے ساتھ بہت زیادہ شفقت وعنایت کامعاملہ فرمایاکرتے تھے۔ نیز انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن النضررضی اللہ عنہ کابھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت ہی والہانہ اورجذباتی تعلق تھا،غزوۂ اُحدکے موقع پر انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرجس طرح بے مثال شجاعت وبہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیاتھاوہ تاریخِ اسلام کاایک یادگارواقعہ ہے…حتیٰ کہ اسی واقعے کے حوالے سے قرآن کریم کی یہ عظیم آیت نازل ہوئی تھی{مِنَ المُؤمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّہَ عَلَیہِ …}(۱)یعنی’’ایمان والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ جوعہدکیاتھاوہ پوراکردکھایا‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ اُم سُلیم کی بہن (حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ)’’اُم حرام‘‘ بڑی تاریخی شخصیت تھیں ، صحابیات میں ان کابڑامقام ومرتبہ تھا،یہ رسول اللہ ﷺ کے مشہورومعروف اورجلیل القدرصحابی حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں ،جن کارسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہمیشہ بہت خاص اورقریبی تعلق رہاتھا۔ ٭…حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ اُم سُلیم کی اپنے سابق شوہرسے بھی اولادتھی ،جن میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ قابلِ ذکرتھے،اورپھرحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی شادی کے بعداللہ نے ان دونوں کومزیداولادسے نوازا۔ خاص طورپران دونوں کے ایک بیٹے کاتذکرہ تمام کتبِ حدیث میں بڑی تفصیل کے ساتھ مذکورہے جس میں تمام مسلمانوں کیلئے بہت بڑاسبق اوراہم ترین نصیحت ہے ، بالخصوص ’’صبر‘‘اور’’رِضاء بالقضاء‘‘کے باب میں یہ واقعہ ہمیشہ بطورِمثال بیان کیاجاتاہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ان دونوں کاایک کمسن بچہ تھا،جوایک باربیمارپڑگیا،کافی دن گذرگئے ،لیکن اس کی طبیعت سنبھل نہیں سکی،یہ چیزان دونوں کیلئے بڑی پریشانی کاسبب بنی ہوئی تھی۔ ایک روزابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ جب کسی ضروری کام کاج کے سلسلے میں گھرسے باہرگئے ہوئے تھے،تب ان کی غیرموجودگی میں بچے کی طبیعت اچانک مزیدبگڑگئی،حالت کافی نازک ہوگئی،اورپھردیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے ماں باپ کوداغِ مفارقت دے گیا… اب بچے کی ماں یعنی اُم سُلیم(رُمیصاء بنت ملحان النجاریہ رضی اللہ عنہا) کوایک تواپنے ننھے معصوم لختِ جگرکی موت کاصدمہ کھائے جارہاتھا،اس کے علاوہ مزیداب انہیں یہ پریشانی لاحق تھی کہ بچے کاباپ توصبح سے ہی گھرسے باہرگیاہواہے،ہمارے لئے رزق کے انتظام کے سلسلے میں صبح سے جدوجہدمیں مشغول ہوگا،اورجب دن بھرکی محنت اورجدوجہدکے بعد تھکاوٹ سے چورشام کولوٹ کرگھرآئے گا، تب ہم اس کی خدمت کی بجائے اوراس کیلئے راحت وآرام کے انتظام کی بجائے…یہ اس قدرالمناک خبراسے سنائیں گے…؟ آخرکچھ وقت گذرنے کے بعداُم سُلیم کے ہوش وحواس جب قدرے بحال ہونے لگے توانہوں نے گھرمیں سب کوسختی کے ساتھ یہ تاکیدکی کہ’’ شام کوابوطلحہ جب گھرآئیں گے تو خبردار!انہیں اس بچے کی وفات کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتائے گا…جوکچھ بھی بتاناہوگا…اورجس طرح بتاناہوگا…یہ نازک ترین کام میں خودہی انجام دوں گی‘‘ اورپھربچے کے اوپرچادراڑھادی ،اوراسے ڈھانپ دیا۔ جب شام ہوئی ،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھرآئے…تھکاوٹ سے چور…لیکن حسبِ توقع گھرمیں قدم رکھتے ہی انہوں نے سب سے پہلے یہی سوال کیاکہ ’’بچے کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ چونکہ علیٰ الصبح گھرسے جب روانہ ہوئے تھے اُس وقت بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی،لہٰذاگھرسے روانگی کے بعددن بھروہ اسی پریشانی میں مبتلارہے تھے…اُس دورمیں آجکل کی طرح رابطے کی کوئی سہولت میسرنہیں تھی…لہٰذاتمام دن وہ اسی فکرمیں کھوئے رہے تھے کہ …نہ جانے…گھرمیں کیا ہو رہا ہوگا؟ بچے کی کیاکیفیت ہوگی؟یہی وجہ تھی کہ دن بھرکے انتظارکے بعدشام کوگھرپلٹتے ہی سب سے پہلے انہوں نے بچے کی خیریت دریافت کی۔ شوہرکی زبانی یہ سوال سن کراُم سُلیمؓ کچھ دیرکیلئے اندرسے لرزکررہ گئیں ،بہت زیادہ گھبرا گئیں ، لیکن فوراًہی خودکوسنبھالا،حوصلہ مضبوط کیا،اوریوں کہا: ھُوَ أسْکَنُ مَا کَان، یعنی’’پہلے کی بنسبت اب وہ آرام میں ہے‘‘(۱) ابوطلحہ ؓ بیوی کی زبانی یہ جواب سن کرمطمئن ہوگئے،مزیدیہ کہ جب انہوں نے یہ منظر دیکھا کہ بچے کے اوپرتوچادراُڑھارکھی ہے…توانہوں نے چادرہٹاکراسے دیکھنابھی اُس وقت مناسب نہیں سمجھاکہ کہیں ایساکرنے کی وجہ سے اس کی نیندمیں خلل واقع نہوجائے۔ اُس روزاُم سُلیم ؓ نے کھانابھی ابوطلحہؓ کی آمدسے قبل ہی تیارکرلیاتھا،تاکہ جیسے ہی وہ گھر پہنچیں توانہیں فوراًکھاناپیش کردیاجائے،اوریوں وہ مشغول ہوجائیں اورفوری طورپران کی توجہ بچے کی طرف نہ جائے…چنانچہ اب فوراًہی انہوں نے کھاناپیش کردیا،کچھ وقت اس طرح گذرگیا،ابوطلحہؓ یہ سوچ کراب کافی مطمئن اوربے فکربھی تھے کہ بچے کی طبیعت توآج بہترہے…آرام سے سورہاہے،لہٰذاکھانے کے بعدبھی دیرتک میاں بیوی کے درمیان خوشگوارماحول میں گفتگوچلتی رہی،حتیٰ کہ اس دوران ازدواجی معاملات کی نوبت بھی آئی۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعداُم سُلیم رضی اللہ عنہانے اپنے شوہرابوطلحہ رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے …بڑے ہی حوصلے کے ساتھ…پرسکون اندازمیں یوں کہا: یَا أبَا طَلحۃ! أرَأیتَ لَو أنّ قَوماً أعَارُوا عَارِیَتَھُم أھلَ بَیتٍ ، فَطَلَبُوا عَارِیَتَھُم ، أ لَھُم أن یَمنَعُوھُم؟ یعنی’’اے ابوطلحہ!اگرکسی نے کسی کے پاس اپنی کوئی چیزبطورِامانت رکھوائی ہو،اورپھرکچھ عرصے بعدوہ اپنی امانت واپس طلب کرے،توجس کے پاس امانت رکھوائی ہے،کیا اسے اس بات کاحق ہے کہ وہ اس کی امانت لوٹانے سے انکارکردے؟‘‘ ابوطلحہ ؓ نے فوری اوربرجستہ جواب دیاکہ’’نہیں …اسے کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘ تب اُم سُلیمؓ نے کہا: فَاحْتَسِبْ ابنَکَ … یعنی’’لہٰذا…اب آپ بھی اپنے بیٹے کے بارے میں بس اللہ سے ثواب کی امیدرکھئے‘‘ (یعنی ہمارے پاس وہ اللہ کی امانت تھی،اللہ نے اپنی امانت واپس لے لی،لہٰذااب آپ اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس صدمے پرصبرسے کام لیجئے ) یہ بات ابوطلحہ ؓ کیلئے بالکل ہی اچانک اورغیرمتوقع تھی،لہٰذااپنی اہلیہ کی زبانی وہ یہ خبرسن کر بہت ناراض ہوئے،اورخوب غصے کی کیفیت میں یوں کہنے لگے: تَرَکْتِنِي، حَتّیٰاِذا تَلَطَخّتُ… ثُمّ أخْبَرتِنِي بِابْنِي…؟ یعنی’’اب…اتناکچھ ہوجانے کے بعدتم مجھے میرے بیٹے کی موت کی خبرسنارہی ہو؟ اورپھرصبح ہوتے ہی ابوطلحہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اوریہ تمام صورتِ حال بیان کی…جسے سننے کے بعدآپؐ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: بَارَکَ اللّہُ لَکُمَا فِي لَیلَتِکُمَا … یعنی’’آج رات کے تم دونوں کے اس تعلق میں اللہ خیروبرکت عطاء فرمائے…‘‘ اس کے بعدجب کچھ عرصہ گزرچکاتواُم سُلیم کوحمل کے آثارمحسوس ہونے لگے…وقت گذرتارہا،اورولادت کے دن قریب آتے گئے۔ ٭…حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کایہ معمول تھاکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں زیادہ سے زیادہ وقت گذارنے کی کوشش کیاکرتے تھے،حتیٰ کہ اگرکبھی آپؐ مدینہ سے باہرکسی سفرپرتشریف لے جاتے،تب بھی ابوطلحہؓ ہمیشہ آپؐ کے ہمراہ ہی رہاکرتے…تاکہ دورانِ سفرآپؐ کی خدمت ٗ نیزبوقتِ ضرورت آپؐ کی حفاظت اورحمایت ومدافعت کافریضہ بھی انجام دیاجاسکے… چنانچہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کسی سفرپرگئے ہوئے تھے،اُس وقت ان کی اہلیہ اُم سُلیم بھی ہمراہ تھیں ،سفرسے واپسی پرجب یہ حضرات مدینہ سے کچھ فاصلے پرتھے …توشام ہونے لگی ،آپؐ کامعمول یہ تھاکہ آپؐ جب بھی کسی سفرسے واپس تشریف لاتے تورات کے وقت اپنے گھرنہیں لوٹتے تھے،بلکہ ہمیشہ دن کی روشنی میں ہی گھرتشریف لایاکرتے تھے۔ چنانچہ اُس روزبھی جب شام ہونے لگی توآپؐ نے اب کسی جگہ توقف کئے بغیرسفرجاری رکھا…تاکہ رات کااندھیراچھانے سے قبل گھرپہنچ سکیں … جبکہ عین اسی وقت اُم سُلیم رضی اللہ عنہاکودردِزِہ محسوس ہونے لگا،اب یہ میاں بیوی دونوں بہت زیادہ پریشان ہونے لگے …کیونکہ اس حالت میں سفرجاری رکھنابہت مشکل تھا، اور اگریہ دونوں رُک جاتے ہیں ،تورسول اللہ ﷺ کاساتھ چھوٹ جائے گا،اوریہ چیزبھی انہیں کسی صورت گوارانہیں تھی… آخراس نازک موقع پرحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ خوب دل لگاکراور گڑگڑا کر اللہ سے دعاء ومناجات میں مشغول ومنہمک ہوگئے،دورانِ دعاء وہ بارباریہ الفاظ دہراتے کہ ’’یااللہ!توخوب جانتاہے کہ مجھے یہ بات بہت زیادہ پسندہے کہ تیرے رسول ﷺ جب بھی مدینہ سے کہیں روانہ ہوں تومیں بھی ان کے ہمراہ رہوں ،اورجب بھی ان کی مدینہ واپسی ہوتب بھی میں ان کے ہمراہ ہی رہوں …لیکن …یااللہ تودیکھ رہاہے کہ آج میں یہ کیسی مشکل میں پھنس گیاہوں ‘‘ دعاء ومناجات اوراللہ کے سامنے فریادکاسلسلہ کچھ دیراسی طرح جاری رہا…اور پھر اچانک ہی اُم سُلیم انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں ’’اے ابوطلحہ!میں جوتکلیف محسوس کررہی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے…لہٰذااب اطمینان کے ساتھ سفرجاری رکھئے‘‘(یعنی اس نازک موقع پرابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی دعاء فوری طورپرقبول ہوئی ،جوکہ یقیناان کی کرامت تھی اوران کے اخلاص کانتیجہ تھا) اورپھرمدینہ شہرپہنچتے ہی اُم سُلیم کودوبارہ وہی تکلیف محسوس ہوئی ،اورتب ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی،ولادت کے فوری بعداُم سُلیمؓ نے اپنے اس نومولودنورِنظرکواپنے بیٹے انس(یعنی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ،جواُن کے پہلے شوہرسے تھے)کی گودمیں ڈالتے ہوئے یہ تاکیدکی کہ اسے فوراًرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ…نیزکچھ کھجوریں بھی ہمراہ بھیجیں … چنانچہ انس(رضی اللہ عنہ)اس نومولودکولئے ہوئے آپؐ کی خدمتِ اقدس میں پہنچے ،آپؐ نے اس نومولودکودیکھ کرنہایت مسرت کااظہارفرمایا،نیزایک کھجوراپنے دانتوں سے چبا کر کچھ نرم کی ،اورپھراس کاکچھ حصہ اپنی انگشتِ مبارک سے اس بچے کوچٹایا(۱) نیزاس موقع پرآپؐ نے اس بچے کانام ’’عبداللہ‘‘تجویزفرمایا،اوراسے دعائے خیروبرکت سے بھی نوازا۔(۱) رسول اللہ ﷺ نے اس نومولودکیلئے دعائے خیروبرکت فرمائی تھی،اولاًتواس کی ولادت سے بہت پہلے جب ان دونوں میاں بیوی کاوہ کمسن بیٹاوفات پاگیاتھا،اورتب اُس موقع پرآپؐ نے ارشادفرمایاتھا: بَارَکَ اللّہُ لَکُمَا فِي لَیلَتِکُمَا … یعنی’’آج رات کے تم دونوں کے اس تعلق میں اللہ خیروبرکت عطاء فرمائے‘‘ اورپھراُس واقعے کے بعداب اِس نومولودکی پیدائش ہوئی تھی، لہٰذاظاہرہے کہ آپؐ کی یہ دعاء اسی نومولودکیلئے تھی…مزیدیہ کہ اِس کی ولادت کے فوری بعداب آپؐ نے دوبارہ اسے دعائے خیروبرکت سے نوازا… لہٰذااسی کایہ اثرتھاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اس بچے میں ٗاورپھرمزیدیہ کہ آگے اس کی نسل میں بھی اس خیروبرکت کے آثارجاری رہے، چنانچہ یہ بچہ (عبداللہ بن ابی طلحہ الانصاریؓ) جب بڑاہواتواللہ نے اسے یکے بعددیگرے نوبیٹے عطاء فرمائے ،جوبڑے ہونے کے بعد انتہائی شریف النفس ثابت ہوئے تھے ،نیز بڑے ہونے کے بعدیہ سب عالمِ دین اورحافظِ قرآن بھی بنے۔
Top