حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ - حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے بعدحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اس مسافرخانے میں اورجہانِ فانی میں تقریباًبیس سال مزیدبقیدِحیات رہے۔ اس دوران ان کے چندمعمولات ایسے رہے جوخاص طورپرقابلِ ذکرہیں ،یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے اس چیزکابطورِخاص تذکرہ کیاہے۔ ٭ایک تویہ کہ رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدانہوں نے یہ جوبیس سال کاعرصہ اس دنیامیں گذارا،اس دوران یہ روزے بہت زیادہ رکھاکرتے تھے،یہ ان کاہمیشہ انتہائی مرغوب اورپسندیدہ ترین عمل رہا۔ ٭دوسری بات یہ کہ ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘کابڑے پیمانے پرہمیشہ بہت زیادہ اہتمام والتزام کرتے رہے۔ ٭تیسری بات یہ کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرہمیشہ اسلامی لشکرکے ہمراہ مختلف محاذوں پردشمن کے خلاف برسرِپیکاررہتے۔ چنانچہ ایک بارخلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران مدینہ سے مسلمانوں کاایک لشکرجب کسی محاذکی جانب روانہ ہونے والاتھا،تب انہوں نے بھی اس لشکرکے ہمراہ روانگی کی تیاری شروع کردی،اس وقت یہ کافی عمررسیدہ اورضعیف ہوچکے تھے،لہٰذاان کی اس کیفیت کودیکھتے ہوئے ان کے جوان بیٹوں ٗنیزبہت سے اعزہ واحباب نے کافی اصرارکیاکہ ’’آپ اس سفرپرمت جائیے،ہم جوان لوگ جوجارہے ہیں ،بس یہی کافی ہے‘‘۔ مزیدان سب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ’’رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں ہرغزوے کے موقع پرآپ شریک رہے اورپیش پیش رہے،اس کے بعدخلیفۂ اول اورپھرخلیفۂ دوم کے زمانے میں بھی آپ کی یہی کیفیت رہی،لہٰذابس وہ بہت کافی ہوچکا،اب آپ کواس عمرمیں اپنی صحت کی فکرکرنی چاہئے اورآرام کرناچاہئے‘‘ لیکن حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کسی کی ایک نہ سنی ،اوراپنے اس عزم اوراس فیصلے پرقائم رہے کہ ’’میں ضرورجاؤں گا‘‘۔ چنانچہ لشکرمدینہ سے روانہ ہوا،تقریباًڈیڑھ ہزارکلومیٹرکاسفرطے کرنے کے بعدیہ لشکرملکِ شام پہنچا،وہاں سے مزیدآگے بڑھنے کے بعدمختلف محاذوں پرسلطنتِ روم کے مختلف فوجی دستوں کے ساتھ جنگوں اورجھڑپوں کے سلسلے شروع ہوگئے… جنگوں اورجھڑپوں کے اسی سلسلے کے دوران آخراس لشکرکواب ایک ایسے محاذپرپہنچناتھاجس کیلئے بحری سفرضروری تھا(۱) چنانچہ اسلامی لشکرکاوہ بحری بیڑا محاذ کی جانب روانہ ہوگیا،اورجب یہ بحری بیڑاخشکی سے بہت دوربیچ سمندرمیں تھا،تب حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی طبیعت ناساز ہوگئی (بالخصوص یہ کہ انہیں سمندری سفرکااس سے قبل کوئی تجربہ بھی نہیں تھا)رفتہ رفتہ مرض شدت اختیار کرتاگیا…اورپھراس چندروزہ علالت کے بعدوہیں بحری جہازمیں ہی ان کاانتقال ہوگیا… ان کے انتقال کے بعدان کے بیٹے اوردیگرساتھی مسلسل اس انتظارمیں رہے کہ دورانِ سفر کہیں کوئی خشکی نظرآئے …بس اتنی سی خشکی نظرآجائے …کہ جہاں ان کی قبرتیارکی جاسکے … اسی کیفیت میں یہ بحری بیڑاسمندرکی وسعتوں میں …چلتارہا…سمندرکاسینہ چاک کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتارہا…حتیٰ کہ چلتے چلتے سات دن گذرگئے… لیکن کہیں کوئی خشکی کاٹکڑانظرنہیں آیا… اس دوران سات دن گذرجانے کے باوجودحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے جسم میں کوئی تغیریاتعفن پیدانہیں ہوا،ان کاجسم مکمل طورپردرست حالت میں رہا،بالکل صحیح اورتر وتازہ …گویابس آرام سے گہری نیندسورہے ہوں …چادراوڑھے ہوئے… آخرسات دن گذرجانے کے بعدآٹھویں دن خشکی کاٹکڑانظرآیا…تب ان کے بیٹوں اورساتھیوں نے وہاں قبرکھودی ،اورانہیں وہاں سپردِخاک کیا…ایسی جگہ…جس کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں تھاکہ یہ کون سی جگہ ہے؟ سمندرکے بیچوں بیچ…ایک بالکل مختصرسازمین کاٹکڑا…ساحل سے بہت دور…اس زمین سے بہت دور…اوراس زمین پرآبادانسانوں کی اس دنیاسے بہت دور…وطن سے بہت دور…اپنے شہرمدینہ سے بہت دور…اہل وعیال اوراعزہ واحباب سے بہت دور…کسی نامعلوم مقام پر… گمنام جگہ پر…سمندرکے بیچوں بیچ…کہ جہاں ان کے گھروالے زندگی بھرکبھی دوبارہ ان کی قبربھی نہیں دیکھ سکیں گے…کیونکہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ بیچ سمندرمیں یہ اتنی ذرہ سی خشکی…آخریہ ہے کونسی جگہ…؟ یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ … اگرچہ ہمیشہ کیلئے اپنوں سے بہت دورچلے گئے…اُس گمنام جگہ پر…لیکن اپنوں سے اس دوری کایقیناانہیں کوئی غم نہیں ہوگا…کیونکہ وہ ان تمامتردوریوں کے باوجوداپنے ’’اللہ‘‘سے تویقینابہت قریب تھے… اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔
Top