حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ - حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ
حذیفہ کے والد’’یمان‘‘کاتعلق مکہ میں قبیلہ ’’عَبْس‘‘سے تھا،اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے دیگرسبھی افرادکی مانندوہاں مکہ میں یمان کے شب وروزبھی معمول کے مطابق بسرہورہے تھے …البتہ (ظہورِاسلام سے قبل) ایک روزیہ واقعہ پیش آیاکہ یمان کااپنے قبیلے کے کسی فردکے ساتھ کسی بات پرجھگڑاہوگیا،پہلے تلخ کلامی ٗاور پھر زد وکوب کاسلسلہ ہواجس کے دوران وہ شخص اس کے ہاتھوں ماراگیا… تب انتقام سے بچنے کی خاطریہ مکہ شہرسے بھاگ کھڑاہوا…اورپھرچھپتے چھپاتے آخر مدینہ (اُس دورمیں جسے یثرب کہاجاتاتھا) جاپہنچا، جہاں اس نے مدینہ شہرکی ایک مضافاتی بستی’’قباء‘‘میں آباد مشہوراور طاقتور خاندان ’’بنوعبدالأشہل‘‘میں باقاعدہ پناہ حاصل کرلی، اورپھررفتہ رفتہ وہاں معاشرے میں ان لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات استوارہوتے چلے گئے۔ آخرمرورِوقت کے ساتھ یہ تعلقات اس قدرخوشگواراورمستحکم ہوگئے کہ وہیں اس خاندان ’’بنوعبدالأشہل‘‘میں اس کی شادی بھی ہوگئی،اورپھراس کابیٹاپیداہوا،جس کانام ان دونوں میاں بیوی نے ’’حذیفہ‘‘رکھا۔ یمان کواپنے شہرمکہ سے نکلنے کے بعدوہاں کی یادستاتی رہتی تھی ،لیکن وہ خوف کی وجہ سے وہاں جانے سے گھبراتاتھا،البتہ جب کافی وقت گذرچکاتواب وہ سوچنے لگاکہ شایدمیرے قبیلے والے میری اُس غلطی(یعنی میرے ہاتھوں ایک شخص کی موت) کواب بھلاچکے ہوں گے…یہ سوچ کریمان نے اب وقتاًفوقتاًمدینہ سے مکہ آمدورفت کاسلسلہ شروع کردیا، لیکن اسی پرانے خوف کی وجہ سے وہاں رہائش اختیارنہیں کی،اپنی مستقل رہائش بدستور مدینہ میں ہی رکھی۔ اورپھرجب دینِ اسلام کاسورج طلوع ہوا،اورجزیرۃ العرب پرآفتابِ نبوت اپنی کرنیں بکھیرنے لگا…تب یمان ایک بارجب مکہ گیاہواتھا…(یہ اُس دورکی بات ہے جب ہجرتِ مدینہ کاواقعہ ابھی پیش نہیں آیاتھا،رسول اللہ ﷺ مکہ میں ہی مقیم تھے)تب مکہ میں یمان کی موجودگی کے دوران یہ واقعہ پیش آیاکہ اس کے قبیلے عَبْس کے چندافرادنے رسول اللہ ﷺ کی بعثت ورسالت کے بارے میں جب خبریں سنیں تویہ فیصلہ کیاکہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرکے براہِ راست آپؐ کی زبانی پیغامِ حق سناجائے،اوراس کے بعددینِ اسلام قبول کرنے یانہ کرنے کے بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کیاجائے۔ یمان کوجب اس بات کاعلم ہواتویہ بھی اپنے خاندان ’’عَبْس‘‘کے ان افرادکے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا،آپؐ کی مبارک گفتگوسنی ،اللہ کامقدس کلام سنا،جس پر یہ سبھی افرادانتہائی متأثرہوئے ،اوردعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوگئے،اوریوں اب ’’یمان‘‘ رسول اللہ ﷺ کے صحابی’’ حضرت یمان رضی اللہ عنہ‘‘ بن گئے۔ اورپھرجب یمان اس سفرسے لوٹ کرواپس اپنے گھرمدینہ پہنچے تووہاں انہو ں نے اپنی اہلیہ کوبھی دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کے بارے میں مطلع کیااورقبولِ اسلام کی دعوت دی ، چنانچہ اس دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے وہ بھی مسلمان ہوگئیں ۔ یوں ان دونوں میاں بیوی کاوہ کمسن بیٹا’’حُذیفہ‘‘مدینہ میں مسلم گھرانے کاچشم وچراغ تھا،اورایسے عظیم والدین کے زیرِسایہ پرورش پارہاتھاکہ جوبالکل ابتدائی دورمیں ہی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوگئے تھے،چنانچہ حذیفہ کوبالکل بچپن میں ہی… رسول اللہ ﷺ کی زیارت اوردیدار سے قبل ہی ایمان کی انمول دولت نصیب ہوگئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی زیارت اوردیدارکاشوق حذیفہؓ کے رگ وپے میں سمایاہواتھا،جب سے وہ مسلمان ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ کے حالات جاننے کیلئے ٗنیزآپؐ کے اوصافِ حمیدہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے وہ مسلسل کوشش اور جستجومیں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ حذیفہؓ جب کچھ بڑے اورسمجھدارہوگئے تو ایک باربطورِخاص رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی غرض سے مدینہ سے سفرکرتے ہوئے مکہ پہنچے،جہاں انہیں زندگی میں پہلی بار آپؐ کادیدارنصیب ہوا۔ اس کے بعدجب رسول اللہ ﷺ ہجرت فرماکرمکہ سے مدینہ تشریف لائے توایک روز حذیفہؓ نے آپؐ سے دریافت کیا : أمُھَاجِرٌ أنَا أم انصَاريٌّ یَا رَسُولَ اللّہ؟ یعنی’’اے اللہ کے رسول!کیامیں مہاجرین میں سے ہوں …یاانصارمیں سے؟‘‘ (۱) اس پرآپؐ نے ارشادفرمایا: اِن شِئتَ کُنْتَ مِنَ المُھَاجِرِینَ ، وَاِن شِئتَ کُنْتَ مِنَ الأنصَار ۔ یعنی’’اگرتم چاہو توخودکومہاجرین میں شمارکرلو،اوراگرچاہو توانصارمیں ‘‘ اس پرحذیفہؓ نے عرض کیا: بَل أنَا أنصَاريٌّ یَا رَسُولَ اللّہ ۔ یعنی’’اے اللہ کے رسول! میں انصاری ہوں ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعدحذیفہؓ اوران کے والدیمانؓ دونوں کی یہی کیفیت رہی کہ ہمہ وقت زیادہ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری اورعلمی استفادے میں مشغول ومنہمک رہاکرتے تھے۔ ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدمحض اگلے ہی سال جب مشرکین ومخالفین کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلح جارحیت کاسلسلہ شروع ہواتواس حوالے سے باپ بیٹادونوں کی کیفیت یہ رہی کہ اولین غزوہ یعنی ’’بدر‘‘میں یہ دونوں ہی شریک نہیں ہوسکے تھے،دوسرے غزوے یعنی اُحدکے موقع پردونوں ہی شریک ہوئے تھے ،البتہ اس موقع پریمان شہیدہوگئے،جبکہ باقی تمام غزوات میں حذیفہ ہمیشہ شریک رہے۔ اولین غزوہ یعنی ’’بدر‘‘سے ان دونوں کی غیرحاضری کی وجہ یہ ہوئی کہ اس غزوے سے چندروزقبل جب مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین حالات کافی کشیدہ چل رہے تھے، جنگ کے بادل منڈلارہے تھے…ایسے میں یہ باپ بیٹادونوں مدینہ شہرسے باہرکچھ فاصلے پراپنے کسی کام کاج کے سلسلے میں چلے جارہے تھے ،تب اچانک مشرکینِ مکہ کاایک مسلح دستہ وہاں آدھمکا،ان دونوں کوانہوں نے گرفتارکرلیا…اورپھربڑی ہی مشکلوں سے اس شرط پررہاکیاکہ اگرمسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین جنگ کی نوبت آئی تویہ اس جنگ سے لاتعلق اورالگ تھلگ رہیں گے…مسلمانوں کے ساتھ مل کرمشرکین کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوں گے،کسی محاذآرائی میں مسلمانوں کاساتھ نہیں دیں گے۔ چنانچہ اس شرط پررہائی پانے کے بعدیہ دونوں جب مدینہ پہنچے توانہوں نے رسول اللہ ﷺ کواس صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے دریافت کیاکہ ’’اب ہمیں کیاکرناچاہئے؟‘‘ تب آپؐ نے جواب میں ارشادفرمایا : نَفِيْ بِعَھْدِھِم ، وَنَستَعِینُ عَلَیھِم بِاللّہِ تَعَالَیٰ … یعنی’’اُن کے ساتھ کیاہواوعدہ پوراکیاجائے گا،اوربس اللہ ہی سے ہم ان کے خلاف مددطلب کرتے رہیں گے‘‘(یعنی مشرکین کی قیدسے رہائی کی خاطر ان دونوں نے یہ جووعدہ کیاتھاکہ ہم رہائی کے بعدمشرکین کے خلاف کسی جنگ کاحصہ نہیں بنیں گے ۔ لہٰذااب ہم وعدہ خلافی نہیں کریں گے)۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس ہدایت(یعنی وعدہ خلافی سے گریز) پرعمل کرتے ہوئے یہ دونوں باپ بیٹاغزوۂ بدرکے موقع پرشریک نہیں ہوئے تاکہ مشرکین کے ساتھ کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہو۔ اس کے بعداگلے ہی سال یعنی ۳ھ؁میں غزوۂ اُحدکاواقعہ پیش آیا،اس موقع پرحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شریک ہوئے اورخوب شجاعت وبہادری کے جوہردکھائے،بڑی ہی بے جگری اوراستقامت کے ساتھ لڑے ،اس موقع پرانہیں بہت سے زخم بھی لگے…البتہ جان بچ گئی۔ جبکہ حذیفہؓ کے والدیمانؓ اس موقع پرشہیدہوگئے…لیکن ان کے ساتھ افسوسناک واقعہ یہ پیش آیاکہ ان کی شہادت مشرکینِ مکہ کے ہاتھوں نہیں ہوئی،بلکہ ایک غلط فہمی کے نتیجے میں وہ خودمسلمانوں ہی کی تلواروں کی زَدمیں آگئے اورجانبرنہوسکے۔ ہوایوں کہ غزوۂ اُحدکے آغازسے کچھ قبل رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں اوربچوں کودشمن سے حفاظت کی خاطرایک محفوظ مقام پر جمع ہونے کی تاکیدفرمائی تھی ،اورپھرآپؐ نے یمان ٗ نیزایک اورشخص (ثابت بن وقشؓ)کے بڑھاپے اورکمزوری کودیکھتے ہوئے ان دونوں کویہ تاکیدفرمائی تھی کہ ’’تم دونوں میدانِ جنگ میں دشمن کے خلاف باقاعدہ لڑنے کی بجائے بس اسی مقام پران عورتوں اوربچوں کی حفاظت کرنا‘‘ چنانچہ یہ دونوں اسی مقام پرموجودتھے،لیکن…جب معرکہ شروع ہوا،اورپھررفتہ رفتہ دونوں طرف سے جنگ میں خوب شدت آنے لگی…تب یمانؓ سے صبرنہیں ہوسکا… اور اپنے ساتھی کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے :’’ ہمیں کس چیزکاانتظارہے؟ کیوں نہ ہم اپنی اپنی تلواراٹھائیں اوررسول اللہ ﷺ سے جاملیں ؟…شایداللہ ہمیں بھی شہادت کادرجہ نصیب فرمادے‘‘ اورپھردونوں نے اپنی تلواریں اٹھائیں ، اورمیدانِ جنگ کی طرف چل دئیے،اورپھروہاں پہنچنے کے بعدجنگ میں کودپڑے…اس موقع پریمانؓ کے ساتھی ثابتؓ کومشرکینِ مکہ کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی ،لیکن یمانؓ کووہاں موجودمسلمان پہچان نہیں سکے،یوں یمانؓ غلطی سے ان کی تلواروں کانشانہ بن گئے…یمانؓ خودچونکہ کافی عمررسیدہ تھے،اس لئے نیچے گرگئے،اورکچھ بول بھی نہیں سکے،جبکہ حذیفہؓ وہاں سے کچھ دورتھے…البتہ یہ کہ اتفاقاًانہوں نے یہ منظردیکھ لیا،تب وہ دوڑے ہوئے وہاں پہنچے ،اورمسلسل بآوازبلند پکارتے رہے ’’أبی…أبی‘‘یعنی ’’یہ تومیرے والدہیں ‘‘ لیکن اُس وقت تک بہت دیرہوچکی تھی،مزیدیہ کہ اس افراتفری میں کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی،کسی کوکچھ سجھائی نہیں دے رہاتھا…آخران سب کی نگاہوں کے سامنے عمررسیدہ یمانؓ نے آخری ہچکی لی،اوراپنے اللہ سے جاملے…سبھی لوگ بس دیکھتے اورافسوس کرتے رہ گئے۔حُذیفہؓ نے ان لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے بس اتناکہا: یَغفِرُاللّہُ لَکُم…وَہُوَ أرحَمُ الرَّاحِمِین (۱) یعنی’’اللہ تمہیں معاف فرمائے…یقیناوہ توتمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کررحم کرنے والاہے‘‘ رسول اللہ ﷺ کوجب اس انتہائی افسوسناک غلطی کے بارے میں اطلاع ہوئی توآپؐ نے بیت المال سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کواس قتلِ خطأ کی دیت اداکرناچاہی،لیکن انہوں نے نہایت ہی ادب کے ساتھ یہ کہتے ہوئے دیت قبول کرنے سے معذرت کرلی کہ ’’اے اللہ کے رسول!میرے والداللہ کی راہ میں شہادت کے آرزومندتھے ،ان کی یہ آرزوپوری ہوگئی،لہٰذااب دیت کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ اورپھرمزیدیوں بھی کہا: اَللّھُمّ اشْھَد أنِّي تَصَدَّقتُ بِدِیَّۃِ أبِي عَلَیٰ المُسْلِمِین ۔ یعنی’’اے اللہ!توگواہ رہناکہ میں نے اپنے والدکی دیت مسلمانوں پرصدقہ کردی ہے‘‘ یعنی بیت المال سے یہ رقم مستحق اورنادار مسلمانوں کی فلاح وبہبودمیں ہی خرچ ہوگی… لہٰذایہ رقم حضرت حذیفہؓ کی طرف سے صدقہ ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ توپہلے ہی حضرت حذیفہؓ پربہت زیادہ شفقت وعنایت فرمایاکرتے تھے ، اب ان کے اس فیصلے اوراس اندازِفکرکی وجہ سے آپؐ کے نزدیک ان کی قدرومنزلت مزید بڑھ گئی۔ ٭…رسول اللہ ﷺ کواپنے رب کی طرف سے جوخاص حکمت ودانش اوربے مثال فہم وفراست عطاء کی گئی تھی اس کاایک اثریہ تھاکہ آپؐ ہمیشہ اپنے تمام صحابۂ کرام میں سے ہرایک کابغورجائزہ لیاکرتے تھے،تاکہ اس کی شخصیت کو اور اس کے مزاج کو سمجھاجاسکے، اوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ اس کی شخصیت اورمزاج میں چھپی ہوئی قدرتی اورفطری خوبیوں اورصلاحیتوں کاکھوج لگایاجاسکے…اورپھراسے کوئی ایسی ہی ذمہ داری سونپی جائے جس سے اس کی یہ خفیہ صلاحیتیں مزیدنکھرسکیں ، نیزیہ کہ اس سے دینِ اسلام اورتمام اسلامی معاشرے کوبھی خوب فائدہ اورنفع پہنچ سکے…جس طرح کسی مشین میں ہرپرزہ یقینا بڑی اہمیت اور افادیت کاحامل ہواکرتاہے،لیکن اس سے استفادہ تبھی ممکن ہوگاکہ جب ہرپرزہ اپنی درست جگہ پرہو… لہٰذارسول اللہ ﷺ ہرایک کی نفسیات کوسمجھنے اوراس میں چھپے ہوئے ’’جوہر‘‘کوجان لینے کے بعدکوئی ایسی ہی ذمہ داری اسے سونپاکرتے تھے جواس کی شخصیت میں پوشیدہ اس جوہر کے مطابق ہو۔ رسول اللہ ﷺ اپنے اسی اصول اوراسی معمول کے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کوبھی جانچتے اورپرکھتے رہتے تھے،آخرآپ ﷺ کوان کی شخصیت اورمزاج میں تین خصوصیات نمایاں طورپرمحسوس ہوئیں : ٭پہلی خصوصیت : انتہائی ذہانت وفطانت ، جومشکل ترین اورپیچیدہ قسم کے معاملات کے حل میں ہمیشہ ان کی مددگاررہتی تھی۔ ٭دوسری خصوصیت: معاملہ فہمی، یعنی فوری طورپراورفی البدیہ معاملے کوخوب سمجھ لینا، حقیقت کی تہ تک پہنچ جانا،اورپھرفوری طورپرمناسب فیصلے اوردرست اقدام کی صلاحیت ۔ ٭تیسری خصوصیت: مکمل رازداری برتنا،کہ کوئی کبھی سمجھ ہی نہ سکے کہ ان کے دل میں کیاہے؟کیاخیالات گردش کررہے ہیں ؟ کن سوچوں کے دھارے بہہ رہے ہیں ؟ کسی کوان کے ارادوں کی بھنک بھی نہ پڑسکے۔(۱) یہ اُس زمانے کی بات ہے جب مدینہ میں مسلمانوں کوایک بہت بڑی مشکل جودرپیش تھی وہ یہوداورمنافقین کاخفیہ گٹھ جوڑتھا،یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان ہی بودوباش رکھتے تھے ، اسی معاشرے کاحصہ تھے،انہی کی صفوں میں رہتے تھے،لہٰذایہ لوگ مارِآستین تھے،ہروقت مسلمانوں کے درپے آزاررہاکرتے تھے،مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے انہی کے خلاف خفیہ سازشوں کے تانے بانے بننے میں ہمہ وقت مصروف رہاکرتے تھے۔ ایسے میں مشکل یہ تھی کہ منافقین توبظاہرمسلمان ہی تھے،ہرقدم پران کے ساتھ موجودرہتے تھے،اپنی زبان سے ایمان کادعویٰ کرتے تھے،لیکن اندرسے وہ دشمن تھے،لہٰذاایسی صورتِ حال میں ان کے خلاف علیٰ الاعلان کوئی تأدیبی کارروائی ممکن نہیں تھی۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اپنی فطری اورخدادادصلاحیت کی وجہ سے ہرمعاملے کا’’کھوج‘‘لگانے اورحقیقت کی تہ تک پہنچ جانے میں چونکہ بڑی مہارت رکھتے تھے ، لہٰذایہی وجہ تھی کہ یہ اس معاشرے میں موجود’’منافقین‘‘کوخوب جانتے اورپہچانتے تھے، ان کی خفیہ سرگرمیوں سے خوب واقف رہاکرتے تھے…لہٰذامنافقین اوران کے ’’شر‘‘ سے یہ ہمیشہ مختلف قسم کے اندیشوں میں مبتلارہاکرتے تھے(دوسرے لوگوں کومنافقین کے ’’شر‘‘اوران کی سازشوں کے بارے میں چونکہ کوئی اندازہ ہی نہیں تھا،لہٰذاوہ اس بارے میں نسبۃً بے فکرتھے) منافقین کے ’’شر‘‘پر حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جونگاہ تھی اسی کایہ اثرتھاکہ یہ فرماتے ہیں کہ : کَانَ النّاسُ یَسألُونَ رَسُولَ اللّہ ﷺ عَنِ الخَیْرِ ، وَکُنتُ أسألُہٗ عَنِ الشّرِ مَخَافَۃَ أن یُدرِکَنِي ۔ (۱) یعنی’’لوگ رسول اللہ ﷺ سے ’’خیر‘‘کے بارے میں دریافت کیاکرتے تھے،جبکہ میں آپؐ سے ’’شر‘‘کے بارے میں دریافت کیاکرتاتھا،اس اندیشے کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی ’’شر‘‘کاشکارنہوجاؤں ‘‘(۲) چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے منافقین کی سرگرمیوں پرگہری نگاہ رکھنے کی غرض سے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کوچندافرادکے نام بتائے،ساتھ ہی اس سلسلے میں مکمل رازداری برتنے کی تلقین بھی فرمائی…چنانچہ یہ سربستہ رازکبھی فاش نہیں ہوسکاکہ وہ کون لوگ تھے جن کے نام آپؐ نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کوبتائے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تاکیدکے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ منافقین کی خفیہ سرگرمیوں پرکڑی نگاہ رکھتے،ان کابغورجائزہ لیتے،اورساتھ ہی ان کی سازشوں کے تدارک ٗ سدِّباب ٗ اوردفاع کاراستہ بھی تلاش کرتے،اوررسول اللہ ﷺ کوہمہ وقت تمام صورتِ حال سے آگاہ رکھتے،اسی وجہ سے یہ ’’صاحب سرّ رسول اللہ‘‘یعنی ’’رسول اللہ ﷺ کے رازدان‘‘کے لقب سے معروف ہوگئے۔
Top