حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ - ’’اسلامی فتوحات‘‘ …اورحضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں ٗاورپھرحضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ’’سراغ رسانی‘‘اور’’منافقین کی نشاندہی‘‘کے معاملے میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جس طرح بڑے پیمانے پرخدمات انجام دیتے رہے اوران کی ان خدمات پراعتمادوانحصارکیاجاتارہا…اسی طرح اسلامی فتوحات کے حوالے سے بھی ان کی خدمات یقیناناقابلِ فراموش ہیں ۔ خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں فتوحات کاسلسلہ بہت وسعت اختیارکرچکاتھا،بہت بڑے پیمانے پرمسلمان برق رفتاری کے ساتھ یکے بعد دیگرے مختلف علاقے فتح کرتے چلے گئے تھے…اورپھریہی سلسلہ کافی حدتک خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں بھی جاری رہاتھا۔ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرلڑی جانے والی ان تاریخی جنگوں کے موقع پر،اورخاص طورپرسلطنتِ فارس کے خلاف جوفیصلہ کن جنگیں لڑی گئیں …ان میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کاکردارہمیشہ نہایت اہم اورقابلِ ذکررہا۔ چنانچہ سلطنتِ فارس کے متعدد بڑے مشہوراورتاریخی وجغرافیائی اہمیت کے حامل شہر حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں ہی فتح کئے گئے۔مثلاً: نیشاپور،نہاوند، دَینور، ہمذان(جسے فارسی اوراردومیں ہمدان کہاجاتاہے)اور ’’رَی‘‘قابلِ ذکرہیں ۔(۱) اسلامی فتوحات ہی کے حوالے سے ایک اورقابلِ ذکربات یہ کہ سلطنتِ فارس کے خلاف بڑی تاریخی جنگوں کے طویل سلسلے کے بعدآخرجب سلطنتِ فارس کادارالحکومت ’’مدائن‘‘ بھی(حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت) فتح ہوچکا،تب خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس عظیم الشان اورانتہائی تاریخی اہمیت کے حامل شہر ’’مدائن‘‘(۱)کے اولین مسلمان فرمانرواکے طورپرحضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کومنتخب فرمایا۔چنانچہ جب یہ مدائن کے فرمانرواکی حیثیت سے اپناعہدہ سنبھالنے کی غرض سے وہاں پہنچے توفارسی بہت بڑی تعدادمیں انہیں دیکھنے کی غرض سے وہاں جمع ہوگئے،کیونکہ سلطنتِ فارس تواُس دورمیں روئے زمین کی عظیم ترین قوت تھی ،جبکہ مسلمانوں کے ہاتھوں اس عظیم سلطنت کاسورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا،لہٰذامسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کی وجہ سے وہ طبعی طورپراب مسلمانوں سے مرعوب تھے،اسی وجہ سے وہ نسل درنسل اپنے قدیم فارسی شہنشاہوں کی شان وشوکت ٗ رعب اوردبدبہ ٗ اورشاہی جاہ وجلال کانظارہ کرتے رہنے کے بعداب سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کی شان وشوکت تواورزیادہ قابلِ دیدہوگی…کیونکہ مسلمان توفاتح تھے،فاتح کی شان وشوکت تویقینا مفتوح کی شان وشوکت سے بہت بڑھ کرہی ہوگی…اسی تصورکی وجہ سے وہ اپنے اس تاریخی شہرکے اولین مسلمان فرمانرواکے استقبال کیلئے اوراس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بہت بڑی تعدادمیں وہاں جمع ہوگئے…لیکن حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تواس وقت جوکیفیت نظرآئی اس کی وجہ سے وہ تمام مجمع انگشت بدندان رہ گیا…کیونکہ کیفیت یہ تھی کہ اُس وقت یہ ایک گدھے پرسوارتھے،گدھے کی پشت پرکوئی گدی وغیرہ بھی نہیں تھی،بالکل ہی ننگی پشت پربیٹھے ہوئے تھے،مزیدیہ کہ اُس وقت انہوں نے اپنے ہاتھ میں خشک روٹی کاایک ٹکڑاتھاماہواتھا جسے چباتے ہوئے چلے آرہے تھے(۲) ٭…خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں سلطنتِ فارس کے دارالحکومت ’’مدائن‘‘ کی فتح کے بعدحضرت عمرؓ نے اس محاذپربرسرِپیکارسپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کویہ پیغام بھیجاکہ شہرمدائن کواپنی آئندہ کی سیاسی وعسکری سرگرمیوں کیلئے مستقل مرکزنہ بنایاجائے ،بلکہ اس مقصدکیلئے کسی مناسب مقام پرایک نیاشہرآبادکیاجائے ۔ چنانچہ اس ہدایت پرعمل کرتے ہوئے نیاشہربسانے کی غرض سے مناسب جگہ کے انتخاب کی خاطر حضرت سعدبن وقاص رضی اللہ عنہ نے چندافرادپرمشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ،جس کاسربراہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کومقررکیا،چنانچہ یہ اپنی اس ٹیم کے ہمراہ کئی روزتک گھوم پھرکرمختلف مقامات کاجائزہ لیتے رہے،آخرانہوں نے اس مقصدکیلئے تمام ضروری پہلؤوں کومدِنظررکھتے ہوئے ایک جگہ پسندکی،اورحضرت سعدبن وقاص رضی اللہ عنہ کواپنی اس پسندسے آگاہ کیا،جس پرانہوں نے خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کی طرف سے منظوری ملنے پراس مقام پرنیاشہرآبادکیا،جوکہ’’کوفہ‘‘کے نام سے معروف ہوگیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہرکوفہ دینی ٗ علمی ٗ ثقافتی ٗ سیاسی ٗ وعسکری ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے تاریخی اہمیت اختیارکرگیا،حتیٰ کہ خلیفۂ چہارم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سمیت بہت بڑی تعدادمیں حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہیں کوفہ میں ہی مستقل آباد ہوگئے تھے۔(۱)
Top