حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ - ’’رسمِ عثمانی‘‘ …اورحضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ
خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورمیں مشرق ومغرب میں چہارسواسلامی فتوحات کاسلسلہ بہت زیادہ وسعت اختیارکرگیاتھا…اورپھرخلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی یہ سلسلہ کافی حدتک جاری وساری رہا،جس کے نتیجے میں دینِ اسلام عرب دنیاسے نکل کربہت دوردرازکے ان علاقوں تک بھی جاپہنچا جہاں کے باشندے غیرعرب تھے…اوریہ چیزیقینادینِ اسلام کی حقانیت وصداقت کی بہت بڑی دلیل تھی کہ جس کسی نے بھی انصاف پسندی کے ساتھ اورہرقسم کے تعصب سے بالاترہوکردینِ اسلام کی تعلیمات کامطالعہ کیااوراس سلسلے میں فکروتدبرسے کام لیا…وہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے متأثرہوئے بغیرنہیں رہ سکا…اوریوں مفتوحہ علاقوں میں مسلمانوں کی طرف سے کسی جبرواکراہ کے بغیرلوگ فوج درفوج دینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ لیکن اس حوالے سے اس مثبت اورخوش کُن صورتِ حال کے ساتھ ایک پریشانی بھی ظاہرہونے لگی ،وہ یہ کہ قرآن کریم کے بہت سے کلمات کے تلفظ کے بارے میں لوگوں میں اختلاف کی نوبت آنے لگی۔ قرآن کریم توعربی زبان میں ہے ، اُس دورمیں عربی رسم الخط اس قدرترقی یافتہ نہیں تھا کہ جس طرح بعدکے دورمیں بہت سی تبدیلیوں کے بعداس کی شکل ہوگئی ہے،جبکہ اُس دورمیں کیفیت یہ تھی کہ عربی کے بہت سے الفاظ نقطوں کے بغیرہی لکھے جاتے تھے،اس کے علاوہ بھی متعددایسی وجوہات تھیں کہ جن کی بناء پرایک ہی لفظ کومتعددطریقوں سے پڑھاجاسکتاتھا،یہی صورتِ حال قرآن کریم کی بھی تھی کہ بہت سے قرآنی الفاظ اورکلمات اس طرح تحریرکئے گئے تھے کہ جنہیں ایک سے زائدطریقے سے پڑھناممکن تھا۔ لہٰذاجواہلِ زبان تھے یعنی عرب،ان کیلئے تواس میں کوئی دشواری نہیں تھی ،کیونکہ وہ معنیٰ ومفہوم سے باخبرہونے کی وجہ سے سیاق وسباق کی مناسبت سے سمجھ جاتے تھے کہ کس لفظ کو کس طرح پڑھناہے… البتہ بہت بڑی تعدادمیں جوغیرعرب اب مشرف باسلام ہوچکے تھے…انہیں اس معاملے میں کافی دشواری کاسامناتھا،لہٰذاوہ جب تلاوتِ قرآن کرتے توایک ہی لفظ کوکوئی شخص ایک طرح پڑھتا…جبکہ دوسراکوئی کسی اورطرح پڑھتا…یوں ان میں بسااوقات بہت سے قرآنی الفاظ کے تلفظ کے معاملے میں باہم اختلاف کی نوبت آتی… بالخصوص حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سلطنتِ فارس کے ایک دوردرازکے علاقے ’’آرمینیا‘‘(۱)میں جب اسلامی لشکرکے سپہ سالارکی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے تب وہاں یہ صورتِ حال ان کے مشاہدے میں آئی کہ مسلمان سپاہی دن بھراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرمیدانِ کارزارمیں دشمن کے خلاف برسرِپیکاررہتے ہیں ،اورپھر جب رات کااندھیراچھاجاتاہے تویہ سپاہی اپنے اللہ سے لولگانے میں مشغول ہوجاتے ہیں ، پھروہاں تہجد اور دعاء ومناجات کے سلسلے ہوتے ہیں ، ہرخیمے سے تلاوتِ قرآن کی آوازیں بلندہونے لگتی ہیں …ایسے میں تلاوتِ قرآن کے دوران کوئی سپاہی کسی لفظ کوایک طرح پڑھتا،جبکہ دوسراکسی اورطرح …یوں ان میں باہم اختلاف ہونے لگتا… ظاہرہے کہ یہ بہت ہی نازک اورانتہائی حساس ترین معاملہ تھا،کیونکہ یہ کوئی دنیاوی معاملہ تونہیں تھاکہ انسان صبرکرلے…دین کے معاملے میں اوربالخصوص قرآنی کلمات کے تلفظ کے بارے میں کس طرح صبرکیاجاسکتاتھا…؟(۲) مزیدیہ کہ اسلامی لشکرکے یہ سپاہی تووہاں اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرخدمات انجام دے رہے تھے ،اوراسی مقصدکی خاطروہ دن بھردشمن کے خلاف میدان میں برسرِپیکار رہا کرتے تھے…لیکن اگروہ آپس میں ہی اختلاف و افتراق کاشکارہوجاتے…توپھردشمن کے خلاف کس طرح لڑتے…؟ اس کے علاوہ یہ کہ قرآن کریم تواہلِ ایمان کوباہم اتفاق واتحاداوراخوت ومساوات کاسبق سکھاتاہے…لیکن اگراسی قرآن کی تلاوت اوراس کے کلمات کے تلفظ کے بارے میں ہی اہلِ ایمان باہم دست وگریبان ہونے لگیں …تویقینایہ کس قدرافسوسناک بات ہوگی۔ ظاہرہے کہ یہ معاملہ بہت ہی نازک اورانتہائی حساس نوعیت کاتھا،اورکسی بھی وقت بڑے فتنے میں تبدیل ہوسکتاتھا،چنانچہ سپہ سالارکی حیثیت سے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں پیشگی سدِباب کے طورپرمناسب کارروائی کافیصلہ کیا،اوراسی مقصدکی خاطر وہ آرمینیاسے طویل سفرکرتے ہوئے مدینہ پہنچے ،جہاں انہوں نے خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو صورتِ حال کی سنگینی اورنزاکت سے آگاہ کرتے ہوئے اس بارے میں جلدازجلدکسی مناسب اقدام کامشورہ دیا،اوراس بات پروہ مسلسل اصرارکرتے ہی رہے ، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے کبارصحابہ کرام سے مشاورت کے بعدطے کیاکہ قرآن کریم کاایک نیانسخہ تیارکیاجائے ،اوراس مقصدکیلئے ایسارسم الخط اختیار کیاجائے کہ جس کی بناء پر ہرکلمے کوصرف اسی طرح پڑھناممکن ہوسکے کہ جس طرح اسے پڑھنامطلوب ہے،کسی اورطرح اسے پڑھاہی نہ جاسکے۔ چنانچہ اس متفقہ فیصلے پرعملدرآمدکے طورپرنئے رسم الخط کے مطابق قرآن کریم کاایک نیانسخہ تیارکیاگیا،اوریہ نیارسم الخط حضرت عثمانؓ کی طرف نسبت کی وجہ سے ’’رسمِ عثمانی‘‘کے نام سے ہمیشہ کیلئے معروف ہوگیا۔ اس کے بعداس معاملے نے ہمیشہ کیلئے ’’اجماعِ امت‘‘کی شکل اختیارکرلی،یعنی تمام امت ہمیشہ کیلئے اس بات پرمتفق ومتحدہوگئی کہ قرآن کریم کوہمیشہ فقط اسی رسم الخط یعنی’’رسمِ عثمانی‘‘کے مطابق ہی تحریرکیاجا ئے گا،تاکہ اس کے الفاظ وکلمات کے تلفظ کے معاملے میں امت میں کبھی اختلاف وافتراق کی اورفتنے کی نوبت نہ آسکے۔ یوں کتاب اللہ کی تلاوت کے حوالے سے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ یہ جوانتہائی گراں قدراورقابلِ تحسین اقدام کرگئے…اس کے پیچھے دراصل حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی کوشش اورمسلسل اصرارکابڑاعمل دخل تھا۔
Top