حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ - آخری ایام …اوروفات
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران مسلسل قابلِ قدرخدمات انجام دیتے رہے …اورپھرآپؐ کامبارک دورگذرجانے کے بعدحضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دورمیں بھی ان کی طرف سے ناقابلِ فراموش خدمات کایہ طویل سلسلہ جاری رہا،جس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتارہا…لیکن اس کے باوجودان کی کیفیت یہ تھی کہ مزاج پر ہمیشہ رقت طاری رہتی تھی،خشیتِ الٰہیہ اورفکرِآخرت کاغلبہ رہتاتھا،ہروقت یہی فکردامن گیررہاکرتی تھی کہ اللہ کی طرف سے کوئی مؤاخذہ نہوجائے،اسی فکراورخوف کی وجہ سے لرزاں وترساں رہاکرتے تھے،تادمِ زیست یہی کیفیت طاری رہی،بالخصوص آخری ایام میں یہ کیفیت مزیدشدت اختیارکرگئی… آخری عمرمیں انہوں نے شہرکوفہ میں مستقل رہائش اختیارکرلی تھی،جہاں رفتہ رفتہ ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کی طبیعت ناسازرہنے لگی تھی… آخرایک باررات کے آخری پہرطلوعِ فجرسے کچھ قبل ان کی طبیعت زیادہ ناسازہوگئی،تب ان کے پڑوسی بڑی تعدادمیں ان کی خبرگیری کیلئے وہاں پہنچنے لگے ، جن میں متعددصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل تھے،جوانہی کی طرح مستقل طورپرکوفہ میں آبادہوگئے تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے اپنے ان تیمارداروں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے دریافت فرمایا’’یہ کون ساوقت چل رہاہے؟ــ جواب دیاگیا’’صبح طلوع ہونے ہی والی ہے‘‘ یہ سن کرفرمایا: أعُوذُ بِاللّہِ مِن صُبْحٍ یُفضي بي اِلیٰ النّار‘‘یعنی ’’میں اللہ کی پناہ طلب کرتاہوں ایسی صبح سے جومجھے جہنم کی آگ تک پہنچانے کاسبب بن جائے‘‘ اورپھروصیت کرتے ہوئے فرمایا: لَاتُغَالُوا بِالأکفَانِ ، فَاِن یَکُن لِي عِندَ اللّہِ خَیراً بُدِّلتُ بِہٖ خَیراً ، وَاِن کَانَتِ الأخرَیٰ سُلِبَ مِنِّي ذلِکَ ۔ یعنی’’میرے کفن کیلئے کسی قیمتی کپڑے کاانتظام نہ کرنا،کیونکہ اگراللہ کے پاس میرے لئے خیروخوبی ہوئی تومجھے وہاں بہت بہترنصیب ہوجائے گا،اوراگروہاں میرے لئے (خیروخوبی کی بجائے) کچھ اورمعاملہ ہوا،تویہ قیمتی کفن میرے کسی کام نہیں آسکے گا‘‘ یوں بالکل آخری وقت میں بھی یہی پیغام دے گئے کہ دنیاوی مال ومتاع سب عارضی وفانی ہے،جبکہ آخرت کی راحت وکامیابی دائمی وابدی ہے ،وہاں کی نعمتیں لازوال ہیں ، لہٰذا آخرت کی کامیابی کی فکرزیادہ ہونی چاہئے،دنیامیں اگرکسی کوبڑے قیمتی اورنفیس قسم کے کفن میں لپیٹ کرسفرِ آخرت پرروانہ کیاگیاہو،لیکن وہاں اس کیلئے راحت کی بجائے کچھ اور معاملہ ہو،تویہ قیمتی کفن کس کام آسکے گا…؟ جبکہ اگرانسان کاعمل درست ہو،اوراس کی آخرت اچھی ہو،توپھرمہنگے اورنفیس کفن کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے…! اورپھراس نصیحت کے فوری بعدہی ان کاانتقال ہوگیا۔ ۳۶ھ؁ کے بالکل ہی ابتدائی ایام چل رہے تھے،اُسی دن یہ خبرکوفہ پہنچی تھی کہ مدینہ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت (جوکہ ۱۸/ذوالحجہ بروزجمعہ ۳۵ھ؁ کوہوئی تھی) کے بعداب خلیفۂ چہارم کی حیثیت سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھال لیاہے…یہ خبرجس روزکوفہ پہنچی تھی اسی روزوہاں کوفہ میں ان کا انتقال ہواتھا۔ یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔
Top