سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - یہ تو وہی کلام ہے
اس کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔" اس وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:"یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسٰی علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں ۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔" اس پر نجاشی نے پوچھا: "تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟" حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: "ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں ۔" پھر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی: "اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں ، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں ۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں ، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ،ہم انہیں چھوڑ دیں ۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ نماز پڑھیں ، زکوٰۃ دیں ، روزے رکھیں ۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔" حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا: "کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟" "ہاں ! موجود ہے۔" جواب میں حضرت جعفر بولے ۔ "وہ مجھے پڑھ کر سنائیں ۔"نجاشی بولا۔ اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں ۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا: "ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔" اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں ۔تب نجاشی نے کہا: "اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لےکر آئے تھے ۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔" اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا ۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب ميں مقیم تھے ۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کےسال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح. پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہيں بچا، آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی، ابوطالب فوراﹰ گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا ۔ تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہےاور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،. اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد ﴿صلی اللہ ﷺ ﴾کو، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔،، یہ سن کر قریش نے کہا: “ہمیں تمہاری بات منظور ہے… ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں ۔” انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی ۔صرف اللہ کا نام باقی تھا ۔اس طرح مشرک اس. معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا: " آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں ۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔" اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔ اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ ﷺ اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔
Top