سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - الله سے ہم کلامی
دوزخ کا حال یہ دکھایا گیاکہ آپ وادی میں پہنچے۔وہاں آپ نے ایک بہت بدنما آواز سنی۔ آپ نے بدبو بھی محسوس کی۔ آپ نے پوچھا: " جبریئل! یہ کیا ہے؟ " انہوں نے بتایا: یہ جہنم کی آواز ہے، یہ کہہ رہی ہے " اے میرے پروردگار!مجھے وہ غذا دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میری زنجیریں اور بیڑیاں ، میری آگ، میرے شعلے، گرمی، گرم ہوا، پیپ اور عذاب کے دوسرے ہیبت ناک سامان بہت بڑھ گئے ہیں ، میری گہرائی اور اس گہرائی میں آگ کی تپش یعنی میرا پیٹ اور اس کی بھوک بہت زیادہ ہے، اس لیے مجھے میری وہ خوراک دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔" جہنم کی اس پکار کے جواب میں الله تعالٰی نے فرمایا: "ہر کافر اور مشرک، بدطینت، بدمعاش اور خبیث مرد اور عورت تیری خوراک ہیں ۔" یہ سن کر جہنم نے جواب دیا: بس! میں خوش ہوگئی۔" اسی سفر میں آپ کو دجال کی صورت دکھائی گئی۔ اس کی شکل عبدالعزی ابن قطن جیسی تھی۔ یہ عبدالعزٰی جاہلیت کے زمانے میں ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہی مرگیا تھا۔ آپ کو وہاں کچھ لوگ دکھائے گئے۔ان کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پتھروں کی طرح کے بڑے بڑےانگارے تھے۔ یعنی اتنے بڑے بڑے تھے کہ ایک ایک انگارے میں ان کا ہاتھ بھرگیا تھا۔ وہ لوگ انگاروں کو اپنے منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ نے یہ منظر دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: " جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ " جواب میں انہوں نے بتایا: "یہ وہ لوگ ہیں جو زبردستی اور ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے تھے۔" اس کے بعد آپ نے کچھ لوگ دیکھے، جن کے سامنے ایک طرف بہترین قسم کا گوشت رکھا تھا۔ دوسری طرف سڑا ہوا بدبودار گوشت تھا۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے تھے۔ آپ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا: " یہ کون لوگ ہے۔" انہوں نے بتایا: " یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله تعالٰی نے پاک دامن عورتیں یعنی بیویاں دی دی تھیں مگر یہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔یا وہ ایسی عورتیں ہیں جو اپنے خاوند کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے پاس جاتی تھیں ۔ " آپ نے وہاں ایسے لوگ دیکھے جو اپنے ہی جسم سے پہلوﺅں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ان سے کہا جارہا تھا: " یہ بھی اسی طرح کھاؤ جس طرح تم اپنے بھائی کا گوشت کھایا کرتے تھے۔" آپ نے دریافت فرمایا: " یہ کون لوگ ہے؟ " جبرئیل علیہ السلام نے کہا: " یہ وہ لوگ ہے جو ایک دوسرے پر آوازے کسا کرتے تھے۔" جہنم دکھانے کے بعد آپ کو جنت دکھائی گئ۔آپ نے وہاں موتیوں کے بنے ہوئے گنبد دیکھے۔وہاں کی مٹی مشک کی تھی۔آپ نے جنت میں انار دیکھے، وہ بڑے بڑے ڈولوں جتنے تھے۔اور جنت کے پرندے اونٹوں جتنے بڑے تھے۔ساتوں آسمانوں کی سیر کی سیر کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ بیری کا ایک درخت ہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں ایک چشمہ دیکھا۔اس سے دو نہریں پھوٹ رہی تھیں ۔ایک کا نام کوثر اور دوسری کا نام رحمت۔آپ فرماتے ہیں ، میں نے اس چشمے میں غسل کیا۔ ایک روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں ۔ان میں سے ایک نہر پانی کی،دوسری دودھ کی، تیسری شہد کی اور چوتھی نہر شراب کی ہے۔ اسی وقت سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا یعنی جس شکل میں الله تعالٰی نے بنایا تھا۔ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے۔ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی تعداد میں گر رہے تھے کہ ان کا شمار الله ہی کو معلوم ہے۔ پھر ایک بدلی نے آپ کو آکر گھیر لیا۔ آپ کو اسی بدلی کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔جبرئیل وہی رہ گئے۔( بدلی کی جگہ بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعے اٹھانے کا ذکر بھی آیا ہے۔)یہاں آپ نے صریر اقلام( یعنی لوح محفوظ پر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ )کی آوازیں سنیں ۔ یہ تقدیر کے قلم تھے اور فرشتے ان سے مخلوق کی تقدیریں لکھ رہے تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگےنہیں گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عرش اعظم کے دائیں طرف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر ساتویں آسمان کے اوپر گئے۔ وہاں ایک نہر پر پہنچے۔اس میں یاقوتوں ، موتیوں اور زبرجد کے خیمے لگے تھے۔ اس نہر میں ایک سبز رنگ کا پرندہ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھا کہ اس جیسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: "یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔" آپ فرماتے ہیں ، میں نے دیکھا، اس میں یاقوت اور زمرد کے تھالوں میں رکھے ہوئے سونے اور چاندی کے جام تیر رہے تھے۔ اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے ایک جام اٹھایا۔اس نہر سے بھر کر پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔ آپ فرماتے ہیں ، جبرائیل علیہ السلام مجھے لیے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔اس کے پاس حجاب اکبر ہے۔ حجاب اکبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: " میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا۔ اب آپ آگے تشریف لے جائیں ۔" آپ فرماتے ہیں ، میں آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں سونے کے ایک تخت تک پہنچ گیا۔ اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا تھا۔اسی وقت میں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز سنی...وہ کہہ رہے تھے: " اے محمد! الله تعالٰی آپ کی تعریف فرما رہا ہے۔آپ سنیے اور اطاعت کیجئے۔آپ کلام الہیٰ سے دہشت زدہ نہ ہوں ۔" چنانچہ اس وقت میں نے حق تعالٰی کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مجھے الله کا دیدار ہوا۔ میں فوراً سجدے میں گرگیا۔پھر الله نے مجھ پر وحی اتاری، وہ یہ تھی: " اے محمد! جب تک آپ جنت میں داخل نہیں ہوجائیں گے،اس وقت تک تمام نبیوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔اسی طرح جب تک آپ کی امت جنت میں داخل نہیں ہوگی، تمام امتوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔" اس کے علاوہ الله تعالٰی نے فرمایا: " اے محمد!ہم نے کوثر آپ کو عطا فرما دی ہے۔اس طرح آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام جنتی آپ کے مہمان ہوگے۔" اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہوئیں ۔پچاس نمازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے کم کرائی گئیں ۔یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ کردی گئ تاہم الله تعالٰی نے فرمایا: " اے محمد! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کا ثواب دس کے برابر ہوگا اور اس طرح ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ملے گا۔آپ کی امت میں سے جو شخص بھی نیکی کا ارادہ کرے اور پھر نہ کرسکے، تو میں اس کے حق میں صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھوں گا اور اگر اس نے وہ نیک عمل کر بھی لیا تو اسے دس نیکیوں کے برابر لکھوں گا اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دوگا اور اگر اس نے وہ بدی کرلی تو اس کے نتیجے میں ایک بدی لکھوں گا۔" آپ فرماتے ہیں ،میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: " صدقے کا صلہ دس گنا ہے اور قرض کا صلہ اٹھارہ گنا ہے۔" میں نے جبرائیل سے پوچھا: " یہ کیا بات ہے کہ قرض دینا صدقے سے افضل ہے؟ " جواب میں انہوں نے کہا: " اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل جسے صدقہ دیاجاتا ہے، وہ مانگتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔جب کہ قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہ ہو۔
Top