سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - جب پروانے شمع رسالت پر نثار ہوئے
ایسے میں کسی صحابی نے کہا: "اب جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قتل ہوچکے ہیں تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ " اس پر کچھ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کہا: "اگر اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی کے دین کے لیے لڑوگے، تاکہ تم شہید کی حیثیت سے اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوں ۔" حضرت ثابت بن وحداح رضی الله عنہ نے پکار کر کہا: "اے گروہ انصار! اگر محمد صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اللّٰه تعالیٰ تو زندہ ہے، اسے تو موت نہیں آسکتی۔اپنے دین کے لیے لڑو، اللہ تعالیٰ فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے۔" یہ سنتے ہی انصار کے ایک گروہ نے مشرکوں کے اس دستے پر حملہ کردیا۔جس میں خالدبن ولید، عکرمہ بن ابوجہل، عمرو بن عاص اور ضرار بن خطاب موجود تھے اور یہ چاروں زبردست جنگ جو تھے۔انصار کے حملے کے جواب میں خالد بن ولید نے ان پر جوابی حملہ کیا۔اس جوابی حملے میں ابن وحداح رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔ بدحواسی کے عالم میں کچھ لوگ مدینہ کی طرف پلٹ پڑے تھے، ان کے راستے میں اُمّ ایمن رضی الله عنہ آگئیں ۔ وہ بولیں : "مسلمانو!! یہ کیا! تم پیٹ پھیر کر جارہے ہو؟ " اس پر وہ پلٹ پڑے اور مشرکوں پر حملہ آور ہوئے۔دوسری طرف مسلمانوں کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے مشرکوں کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کردیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی جگہ پر جمے رہے، اس عالم میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمارہے تھے: "اے فلاں ! میری طرف آؤ، اے فلاں ! میری طرف آؤ، میں الله کا رسول ہوں ۔" ہر طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی... اس حالت میں ان تیروں سے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ۔اس نازک وقت میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت آپ صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع رہی... یہ جماعت مشرکوں کے مسلسل حملوں کو روک رہی تھی۔خود کو پروانوں کی طرح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر قربان کررہی تھی۔ان میں حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ بھی تھے۔ وہ دشمن کے وار اپنی ڈھال پر روک رہے تھے۔وہ بہت اچھے تیرانداز تھے، نشانہ بہت پختہ تھا۔چنانچہ دشمنوں پر مسلسل تیر بھی چلارہے تھے اور کہتے جاتے تھے: "میری جان آپ پر فدا ہوجائے، میرا چہرہ آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔" نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو کسی مسلمان کے ترکش میں تیر نظر آتے تو اس سے فرماتے: "اپنا ترکش ابوطلحہ کے سامنے الٹ دو۔" حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہ نے اس روز اس قدر تیراندازی کی کہ ان کے ہاتھ سے تین کمانیں ٹوٹ گئیں ۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دشمن کو دیکھنے کے لیے سر اوپر کرتے تو حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہہ پکار اٹھتے: "اے اللّٰه کے رسول! آپ اپنا سر اوپر نہ کریں ... کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔" پھر خود پنجوں کے بل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالکل سامنے آجاتے تاکہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں ... کوئی تیر لگے تو مجھ کو لگے۔ اس دوران نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کمان تھی، اس کا نام کتوم تھا۔کمان کا ایک سرا ٹوٹ گیا تھا اور دست مبارک میں کمان کی بالشت بھر ڈوری رہ گئی تھی۔حضرت عکاشہ ابن محصن رضی الله عنہہ نے کمان کی ڈوری باندھنے کے لیے وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لے لی مگر ڈوری تو چھوٹی ہوچکی تھی۔اس پر انہوں نے عرض کیا: "اللّٰه کے رسول! ڈوری چھوٹی ہوگئی ہے، اس لیے بندھ نہیں سکتی۔" اس پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اس کو کھینچو! پوری ہوجائے گی۔" عکاشہ رضی الله عنہہ کہتے ہیں : "الله کی قسم! میں نے اس ڈوری کو کھینچا تو وہ کھینچ کر اتنی لمبی ہوگئی کہ وہ کمان کی دونوں سروں پر پوری آگئی۔میں نے ایک سرے پر دو تین بل بھی دے دیئے اور پھر اس پر گرہ لگا دی۔" اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس جو صحابہ کرام رضی الله عنہم موجود تھے، انہوں نے دشمنوں سے زبردست جنگ کی۔ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ بھی تھے۔یہ بھی زبردست تیرانداز تھے۔یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تیر اٹھا اٹھا کر مجھے دے رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ "اے سعد! تیراندازی کرتے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔" وہ فرماتے ہیں :"حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے مجھے ایک تیر ایسا بھی ملا جس کے سرے پر پھل( تیز دھار نوک والا حصہ)نہیں تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا کہ تیر کا پھل نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "یہی تیر چلاؤ ۔" اس پر حضرت سعد رضی الله عنہہ نے دعا کرتے ہوئے کہا: "اے اللّٰه! یہ تیرا تیر ہے، تو اس کو دشمن کے سینے میں پیوست کردے۔" ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے: "اے اللّٰه! سعد کی دعا قبول فرما۔اے اللّٰه! اس کی تیراندازی کو درست فرما۔" پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا ترکش خالی ہوگیا، تیر ختم ہوگئے،تب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ترکش ان کے سامنے الٹ دیا، حضرت سعد رضی الله عنہہ پھر تیر چلانے لگے... کہا جاتا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی الله عنہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے کسی نے پوچھا: "آپ کی دعائیں کیوں فوراً قبول ہوتی ہیں ۔" انہوں نے جواب دیا: "میں زندگی بھر کوئی لقمہ یہ جانے بغیر منہ تک نہیں لے گیا کی یہ کہاں سے آیا ہے؟ " (مطلب یہ کہ ہمیشہ حلال کھایا ہے۔) اس بارے میں حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: "قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب بھی کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔" اس سلسلے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں : "جس کا کمانا حرام ہو، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا لباس حرام ہو، اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں ؟ " اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے ۔ہر تیر پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تیراندازی کرو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔" حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : "میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ جملہ حضرت سعد کے علاوه کسی اور کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ۔" حضرت سعد رضی الله عنہ رشتہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے: "یہ سعد میرے ماموں ہیں ، کوئی مجھے ایسا ماموں تو دکھائے۔" اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ کے علاوہ حضرت سہیل بن حنیف رضی الله عنہ نے بھی تیر چلائے جوکہ اس نازک وقت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں شامل تھے۔ حضرت زید بن عاصم رضی الله عنہ کی بیوی حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہ اس روز مجاہدوں کو پانی پلارہی تھی، جب جنگ کا پانسہ پلٹا مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی تو یہ اس وقت بھی زخمیوں کو پانی پلارہی تھی۔
Top