سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - مشرکین کی واپسی
جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے اس پر وہ بولا: "مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں ۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔" اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا...پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی...اس طرح وہ حرام موت مرا۔ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔" آپ نے دریافت فرمایا: "کیا ہوا؟" جواب میں اس نے کہا: "آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس نے خودکشی کرلی ہے۔" اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا...جس روز نبی کریم ﷺ غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں ؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا...اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا: "تم یہاں کیسے آگئے...قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟" اصیرم نے جواب دیا: "میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں ۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی...یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم رضی اللہ عنہ کی طرف ہوتا تھا۔ اس لڑائی میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا...یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: "تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔" اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو "غسیل الملائکہ" کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔ غزوہ احد میں جنگ کے دوران ایک مشرک ابن عویف جنگجو اپنی صفوں سے نکل کر آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، ایک صحابی آگے بڑھے اور ابن عویف پر تلوار کا وار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا: "لے میرا وار سنبھال! میں ایک فارسی غلام ہوں ۔" ابن عویف کی زرہ کندھے پر سے کٹ گئی، تلوار اس کے کندھے کو کاٹ گئی، نبی اکرم ﷺ نے ان کا جملہ سنا تو فرمایا: "تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔" اب ابن عویف کا بھائی آگے بڑھا، ان صحابی نے اس پر وار کیا اور اس کی گردن اڑادی، اس مرتبہ انہوں نے وار کرتے ہوئے کہا: "لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔" اس پر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: "تم نے خوب کہا۔" اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا: "ہم جا رہے ہیں ...آپ نہ جائیں ۔" اس پر عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ حضور نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں ...مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں ۔" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔" دوسری طرف آپ ﷺ نے ان کے بیٹوں سے فرمایا: "تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔" یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی: اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔" چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں ...انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں ، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔" اسی جنگ میں ان کے ایک بیٹے خلاد رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے اور ان کے سالے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں ، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "یہ اونٹ مامور ہے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔" اس سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دعا کی تھی: اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔ چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا، مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا...یعنی ان کے ناک کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں ۔) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔ لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے...مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی...کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں ، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔" حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے...میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں ۔" اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں ۔" ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔
Top