سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - غزوۂ خندق کے واقعات
عَمروْ کے وار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی سے خون بہہ نکلا مگر انھوں نے فوراً جوابی حملہ کیا، عمرو بن عبدِوَد کی گردن کے نچلے حصے پر ان کی تلوار لگی، تلوار ہنسلی کی ہڈی کو کاٹتی چلی گئی، وہ خاک و خون میں لوٹتا نظر آیا، مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، آپ ﷺ نے یہ نعرہ سنا تو جان لیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمرو کو قتل کردیا ہے، اس کے گرتے ہی جو لوگ اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے، واپس بھاگے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا اور بھاگتے ہوئے ایک کافر پر تلوار کا وار کیا، وہ دو ٹکڑے ہوگیا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار اس کے سر سے ہوتی ہوئی کولہے تک پہنچ گئی، اس پر بعض مسلمانوں نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: "اے ابا عبداللہ! ہم نے تمہاری تلوار جیسی کاٹ کسی کی نہیں دیکھی... اللہ کی قسم... یہ تلوار کا نہیں ... تلوار چلانے والے کا کمال ہے -" "تمام دن جنگ ہوتی رہی، خندق کے ہر حصے پر لڑائی جاری رہی، اس وجہ سے آپ ﷺ اور کوئی مسلمان بھی ظہر سے عشاء تک کوئی نماز نہ پڑھ سکا، اس صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان بار بار کہتے رہے:" ہم نماز نہیں پڑھ سکے -"یہ سن کر حضور اکرم ﷺ فرماتے:"نہ ہی میں پڑھ سکا" آخر جنگ رکنے پر حضور اکرم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا انھوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور حضور اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی، اس کے فوراً بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عصر کی تکبیر پڑھی اور حضور اکرم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی... اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت قضا پڑھی گئیں - غرض خندق کی لڑائی مسلسل جاری رہی، ایک روز خالد بن ولید نے مشرکوں کے ایک دستے کے ساتھ حملہ کیا، لیکن اس طرف اس وقت حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ دوسو سواروں کے ساتھ موجود تھے، جونہی حضرت خالد بن ولید نے اپنے دستے کے ساتھ خندق پار کی، یہ ان کے سامنے آگئے، اس طرح حضرت خالد بن ولید ناکام لوٹ گئے - اس صورتِ حال نے طول پکڑا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوگئے، آخر حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی، اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالٰی دشمن پر ہوا کا طوفان نازل فرمائے گا، طوفان کے ساتھ اللہ اپنے لشکر(فرشتے ) بھی ان پر نازل کرےگا - رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر دےدی، سب نے اللہ کا شکر ادا کیا - رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہوئی، آخر سرخ آندھی کے طوفان نے مشرکوں کو آلیا، ان دنوں موسم یوں بھی سرد تھا، اوپر سے انھیں اس سرد طوفان نے گھیرلیا، مشرکوں کے خیمے الٹ گئے، برتن الٹ گئے، ہوا کے شدید تھپیڑوں نے ہر چیز ادھر سے اُدھر کردی، لوگ سامان کے اوپر اور سامان لوگوں پر آگرا، پھر تیز ہوا سے اس قدر ریت اڑی کہ ان میں سے نہ جانے کتنے ریت میں دفن ہوگئے، ریت کی وجہ سے آگ بجھ گئی، چولہے ٹھنڈے ہوگئے، آگ بجھنے سے اندھیرے نے گویا انھیں نگل لیا، یہ اللہ کا عذاب تھا جو فرشتوں نے ان پر نازل کیا، وہ درہم برہم ہوگئے، اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : "پھر ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسی فوج بھیجی جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی تھی اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں -"(سورۃ الأحزاب) جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے خود جنگ میں شرکت نہیں کی، بلکہ اپنی موجودگی سے مشرکوں کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کردیا اور اس رات جو ہوا چلی، اس کا نام بادِصبا ہے، یعنی وہ ہوا جو سخت سرد رات میں چلے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بادِصبا سے میری مدد کی گئی اور ہوائے زرد کے ذریعے اس قوم کو تباہ کیا گیا -" ہوائے زرد نے مشرکوں کی آنکھوں میں گردوغبار بھردیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں ، یہ طوفان بہت دیر تک اور مسلسل جاری رہا تھا، ساتھ ہی نبی اکرم ﷺ کو مشرکوں میں پھوٹ پڑنے کے بارے میں پتاچلا، وہ ایسے کہ آپ ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ کون ہے جو ہمیں دشمنوں کی خبر لادے، اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں جاؤں گا -" آپ ﷺ نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ ہی بولے، آخر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کے حواری یعنی مددگار ہوتے ہیں ، میرے حواری زبیر ہیں -" پھر آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا... تھکن کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جاسکتے، لیکن حضور اقدس ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی:"جاؤ، اللہ تعالٰی تمہارے سامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے تمہاری حفاظت فرمائے اور تم خیریت سے لوٹ کر ہمارے پاس آؤ -" یہ وہاں سے چل کر دشمن کے پڑاؤ میں پہنچ گئے، وہاں انھوں نے ابوسفیان کو کہتے سنا: اے گروہِ قریش! ہر شخص اپنے ہم نشینوں سے ہوشیار رہے اور جاسوسوں سے پوری طرح خبردار رہے -" پھر اس نے کہا: "اے قریش! ہم نہایت برے حالات کا شکار ہوگئے ہیں ، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں ... بنوقریظہ کے یہودیوں نے ہمیں دغا دیا ہے اور ان کی طرف سے ناخوش گوار باتیں سننے میں آئی ہیں ... اوپر سے اس طوفانی ہوا نے جو تباہ کاری کی ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، اس لیے واپس چلے جاؤ، میں بھی واپس جارہا ہوں -" حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ خبریں لےکر آئے تو نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دشمن کا حال سنایا، آپ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ ﷺ کے دانت مبارک نظر آنے لگے... جب کفّار کا لشکر مدینہ منورہ سے بدحواس ہوکر بھاگا، تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "اب یہ آئندہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے -" خندق کی جنگ کے موقع پر کچھ خاص واقعات پیش آئے - جب خندق کھودی جارہی تھی تو اس دوران ایک صحابی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹی ایک پیالے میں کچھ کھجوریں لائی، یہ کھجوریں وہ اپنے باپ اور ماموں کے لیے لائی تھی...حضور اکرم ﷺ کی نظر ان کھجوروں پر پڑی تو فرمایا: "کھجوریں ادھر لاؤ -" اس لڑکی نے کھجوروں کا برتن آپ ﷺ کے ہاتھوں میں الٹ دیا، کھجوریں اتنی نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ بھر جاتے، آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر ایک کپڑا منگوایا، اس کو پھیلا کر بچھایا، پھر پاس کھڑے صحابی سے فرمایا: "لوگوں کو آواز دو... دوڑ کر آئیں -" چنانچہ سب جلد ہی آگئے، آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اس کپڑے پر گرانے لگے، سب لوگ اس پر سے اٹھا اٹھا کر کھاتے رہے، کھجوریں شروع کرنے سے پہلے سب لوگ بھوکے تھے، بھوک کی حالت میں ان سب نے یہ کھجوریں کھائیں ، سب کے پیٹ بھرگئے... اور آپ ﷺ کے ہاتھوں سے کھجوریں ابھی تک گر رہی تھیں - ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پیش آیا، انہیں جب آپ ﷺ کی شدید بھوک کا علم ہوا تو گھر گئے، ان کے گھر میں بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کچھ گندم بھی تھی، انھوں نے کہا کہ "نبی اکرم ﷺ کو بھوک لگی ہے... لہٰذا یہ بکری ذبح کرکے سالن تیار کرلو،، گندم کو پیس کر روٹیاں پکالو، میں اللہ کے نبی ﷺ کو لے کر آتا ہوں -"حضرت جابر رضی اللہ عنہ کچھ دیر بعد حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آہستہ آواز میں کہا کہ آپ کے لیے گھر میں کھانا تیار کرایا ہے، یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے کسی سے کہا: "اعلان کردو... جابر کے ہاں سب کی دعوت ہے -" چنانچہ پکار کر اعلان کیا گیا کہ سب لوگ جابر کے گھر پہنچ جائیں ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے کہ وہ تھوڑا سا کھانا اتنے لوگوں کو کیسے پورا ہوگا - انھوں نے پریشانی کے عالم میں "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھی اور پھر گھر آگئے... وہ کھانا حضور اقدس ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ برکت دے -" پھر آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھی، سب نے کھانا شروع کیا، باری باری لوگ آتے رہے اور کھا کر اٹھتے رہے، ان کی جگہ دوسرے لیتے رہے... یہاں تک کہ سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اس وقت ان مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "اللہ کی قسم! جب سب کھانا کھا کر چلے گئے تو ہم نے دیکھا...گھر میں اب بھی اتنا ہی کھانا موجود تھا... جتنا حضور اقدس ﷺ کے سامنے رکھا گیا تھا -" جب آپ ﷺ غزوہ خندق سے فارغ ہوکر گھر آئے تو وہ دوپہر کا وقت تھا...حضور اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوگئے، آپ ﷺ ابھی غسل فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سیاہ رنگ کا ریشمی عمامہ باندھے وہاں آگئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک خچر پر سوار تھے، انہوں نے آتے ہی آپ ﷺ سے کہا: "اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں ؟" آپ نے فرمایا: "ہاں ! اتار دیے ہیں -" یہ سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: "لیکن اللہ تعالٰی کے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے -"
Top