سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ چیتے کی سی تیزی سے دوڑے، یہاں تک کہ وہ حملہ آوروں تک پہنچ گئے، جونہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا، ان پر تیر اندازی شروع کردی، جب بھی تیر چلاتے، تو پکار کر کہتے: ’’لے سنبھال! میں ابن اکوع ہوں ، آج کا دن ہلاکت اور بربادی کا دن ہے۔‘‘ جب دشمن اپنے گھوڑے موڑکر ان کی طرف رخ کرتے تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی دوسری جگہ پہنچ جاتے اور وہاں سے تیر اندازی شروع کردیتے، یہ مسلسل اسی طرح کرتے رہے، دشمن کے پیچھے لگے رہے، دشمن ان کے تیروں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ خود حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں بھاگ کر ان میں سے کسی کے سر پر پہنچ جاتا، اس کے پیر میں تیر مارتا، وہ اس سے زخمی ہوجاتا، لیکن جب ان میں سے کوئی پیچھے مڑتا تو میں کسی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور پھر اس جگہ سے تیر اندازی کرکے حملہ آور کو زخمی کردیتا، یا پتھر ان پر گرانے لگتا۔۔۔ میری اس تیر اندازی اور پتھروں کی بارش سے وہ بری طرح تنگ آگئے، یہاں تک کہ میری تیروں کی بارش نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا، زخمی ہوکر بھاگنے والوں نے تیس سے زیادہ نیزے اور اتنی ہی چادریں راستے میں گرادیں تاکہ ان کا بوجھ کم ہو اور وہ آسانی سے بھاگ سکیں ۔ وہ جو چیز بھی کہیں پھینکتے، میں اس پر پتھر رکھ دیتا، تاکہ بعد میں ان کو جمع کرسکوں ، غرض!میں ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ سوائے چند ایک کے وہ تمام اونٹ جو رسول اللہ ﷺ کے تھے۔۔۔ پیچھے رہ گئے، دشمن آگے نکل گیا اور خود میں بھی ان کے تعاقب میں ان اونٹوں سے آگے نکل آیا۔۔۔ اس طرح میں نے حملہ آوروں سے تمام اونٹ چھڑالیے۔‘‘ آنحضرت ﷺ کو جب سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پکار کے بارے میں پتا چلا تو مدینہ منورہ میں اعلان کرادیا کہ اے اللہ کے سوارو! تیار ہوجاؤ! اور سوار ہوکر چلو۔ اس اعلان کے بعد گھڑ سواروں میں سے جو صحابی سب سے پہلے تیار ہوکر آئے، وہ حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے، انہیں ابن اسود بھی کہا جاتا ہے، ان کے بعد حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ آئے، پھر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آئے، پھر باقی گھڑسوار صحابہ حضور اقدس ﷺ کے پاس پہنچ گئے، حضور اکرم ﷺ نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ان کا سالار مقرر فرمایا اور حکم فرمایا: ’’تم لوگ روانہ ہوجاؤ، میں باقی لوگوں کے ساتھ تم سے آملوں گا۔‘‘ چنانچہ یہ گھڑسوار دستہ دشمن کی تلاش میں نکلا۔۔۔ اور دشمن کے سر پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سواروں میں سب سے پہلے جو شخص دشمن تک پہنچا، ان کا نام محدر بن فضلہ تھا، انہیں اخرم اسدی بھی کہا جاتا ہے، یہ آگے بڑھ کر دشمن کے سامنے جاکھڑے ہوئے اور بولے: ’’اے ملعون لوگو! ٹھہرجاؤ، مہاجرین اور انصار تمہارے مقابلے پر نکل پڑے ہیں ۔‘‘ اخرم اسدی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے دشمن کے قریب پہنچ گئے ان کی طرف بڑھنے لگے، تو حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اپنے مورچے سے نکل کر ان کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور بولے: "اے اخرم! ابھی دشمن پر حملہ نہ کریں ! رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کو آنے دیں -" یہ سن کر اخرم اسدی رضی اللہ عنہ بولے: " سلمہ! اگر تم اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جانتے ہوکہ جنت بھی برحق ہے اور دوزخ بھی برحق ہے، تو میرے اور شہادت کے درمیان سے ہٹ جاؤ -" ان کے الفاظ سن کر سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی، فوراً آگے بڑھے... انھوں نے وار کرکے ایک دشمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا، اسی وقت ایک اور دشمن نے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ کو نیزہ دے مارا... وہ شہید ہوگئے... ایسے میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے، ایک دشمن نے ان کے گھوڑے پر وار کیا، گھوڑا زخمی ہوگیا، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پر وار کرکے اس کو قتل کردیا - اسی وقت ایک گُھڑسوار ان کے مقابلے پر آیا، اس کا نام مسعدہ فراری تھا، آتے ہی کہنے لگا: "تم مجھ سے کس طرح مقابلہ کرنا پسند کروگے... تلوار بازی، نیزہ بازی یا پھر کشتی؟" ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بولے: "جو تم پسند کرو -" اس پر اس نے کشتی لڑنا پسند کیا، وہ گھوڑے سے اتر آیا، اپنی تلوار درخت سے لٹکادی،حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی گھوڑے سے اتر آئے، انھوں نے بھی تلوار درخت سے لٹکادی، اب دونوں میں کشتی شروع ہوئی... آخر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو فتح یاب فرمایا، انھوں نے درخت سے لٹکی تلوار کھینچ لی اور اسے قتل کردیا، پھر انھوں نے مسعدہ کے بھتیجے پر حملہ کیا، اس نے خوف زدہ ہوکر باقی اونٹوں کو چھوڑ دیا... حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اونٹوں کو لےکر لوٹے تو حضور اکرم ﷺ تشریف لاتے نظر آئے... حضور اکرم ﷺ نے اونٹوں کو ساتھ میں دیکھ کر فرمایا: "ابوقتادہ تمہارا چہرہ روشن ہو -" اس پر انھوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! آپ کا بھی چہرہ روشن رہے -" اس کے بعد آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: "اللہ تم میں ، تمہاری اولاد میں اور اولاد کی اولاد میں برکت عطا فرمائے -" ایسے میں آپ ﷺ کی نظر ان کی پیشانی پر پڑی... وہاں ایک زخم تھا اور تیر کا پھل زخم ہی میں رہ گیا تھا، حضور نبی کریم ﷺ نے تیر کا وہ حصہ آہستہ سے نکال دیا، پھر ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا اور اپنی ہتھیلی زخم پر رکھ دی - حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ نے جونہی زخم پر ہاتھ رکھا، تکلیف بالکل غائب ہوگئی -" اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو مسعدہ کا گھوڑا اور اس کے ہتھیار عطا فرمائے اور انہیں دعا دی - حضرت ابوقتادہ اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا: "ہمارے سواروں میں بہترین سوار ابوقتادہ ہیں اور ہمارے پیدل مجاہدین میں بہترین پیدل سلمہ ہیں -" پھر حضور نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے - کچھ دن بعد حضور اقدس ﷺ نے ایک خواب دیکھا، یہ کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ امن کی حالت میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں ، پھر عمرہ کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ نے بال منڈوائے ہیں اور کچھ نے بال کتروائے ہیں ، اور یہ کہ آپ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں ، پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کی چابی لی اور عرفات میں قیام کرنے والوں کے ساتھ قیام فرمایا، نیز آپ ﷺ نے اور صحابہ نے بیت اللہ کا طواف کیا - حضور اکرم ﷺ نے اپنا یہ خواب صحابہ کرام کو سنایا، سب اس بشارت سے بہت خوش ہوئے،پھر آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا: "میرا ارادہ عمرے کا ہے -" یہ سننے کے بعد سب نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں ، آخر ایک روز حضور اکرم ﷺ عمرے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے - عمرے کا اعلان آپ ﷺ نے پہلے ہی کرادیا تھا، تاکہ لوگ اس قافلے کو حاجیوں کا قافلہ ہی خیال کریں اور مکے کے لوگ اور اس پاس کے لوگ جنگ کے لیے نہ اٹھ کھڑے ہوں ، مشرکوں اور دوسرے دشمنوں کو پہلے معلوم ہوجائے کہ آپ ﷺ عمرے کی نیت سے آرہے ہیں ... اور کوئی نیت نہیں ہے - حضور اکرم ﷺ نے ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا، پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی... پھر مسجد سے ہی اونٹنی پر سوار ہوئے...اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہیں سے احرام باندھا، حضور اکرم ﷺ اس سفر پر ذی قعدہ کے مہینے میں روانہ ہوئے تھے، قافلے کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، جانوروں پر جھولیں ڈالیں ، تاکہ جان لیا جائے کہ یہ قربانی کے ہیں ان کے کوہانوں پر نشان لگایا گیا، یہ نشان زخم لگاکر ڈالا جاتا ہے، اس سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے... چونکہ حضور اکرم ﷺ عمرے کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، اس لیے آپ ﷺ کے اور صحابہ کے پاس سوائے تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
Top