سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - صلح حدیبیہ
حدیبیہ پہنچ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی طرف قاصد بھیجنے کا ارادہ فرمایا تاکہ بات چیت ہوسکے.... کفار پر واضح ہوجائے کہ مسلمان لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے... بلکہ عمرہ کرنے کی نیت سے آئے ہیں ... اس غرض کےلیے دو یا تین قاصد بھیجے گئے، لیکن بات نہ بن سکی... آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کو بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مکہ میں ان مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس جائیں جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں ... انہیں فتح کی خوش خبری سنائیں اور یہ خبر دیں کہہ بہت جلد الله تعالیٰ مکہ میں اپنے دین کو سربلند فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہاں کسی کو اپنا ایمان چھپانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ غرض آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عثمان رضی الله عنہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے سیدنا عثمان رضی الله عنہ نے ابان بن سعید کی پناہ لی جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعد میں مسلمان ہوئے۔ابان بن سعید نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی پناہ منظور کرلی۔انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اپنے آگے کرلیا... خود ان کے پیچھے چلے تاکہ لوگ جان لیں ، یہ ان کی پناہ میں ہیں ...اس طرح عثمان رضی الله عنہ قریش مکہ تک پہنچے۔انہیں رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ جواب میں قریش نے کہا: "محمد( صلی الله علیہ وسلم)ہماری مرضی کے خلاف کبھی مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے... ہاں تم چاہو تو بیت الله کا طواف کرلو۔" اس پر حضرت عثمان رضی الله عنہ نے جواب دیا: "یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرلوں ۔" قریش نے بات چیت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو تین دن تک روکے رکھا، ایسے میں کسی نے یہ خبر اڑادی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید کردیا ہے... اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے غمزدہ ہوکر ارشاد فرمایا: "اب ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک دشمن سے جنگ نہیں کرلیں گے۔" اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "الله تعالیٰ نے مجھے مسلمانوں سے بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے۔" حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بات پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے پکار پکار کر بیعت کا اعلان کیا، اس اعلان پر سب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے، صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی۔ "کسی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔فتح حاصل کریں گے یا شہید ہوجائیں گے۔" مطلب یہ کہ یہ بیعت موت پر بیعت تھی۔اس بیعت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی طرف سے خود بیعت کی... اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: "اے اللّٰه! یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے، کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں ، اس لیے ان کی طرف سے میں خود بیعت کرتا ہوں ۔" پھر چودہ سو صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے باری باری بیعت کی۔ بعد میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع مل گئی کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید نہیں کیا گیا... وہ زندہ سلامت ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا: "اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مغفرت کردی، جو غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے۔" اس بیعت کا ذکر الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا: "اے پیغمبر! جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، تو اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور جو سچائی اور خلوص ان کے دلوں میں تھا، اس نے وہ معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔ ادھر قریش کو جب موت کی اس بیعت کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہوگئے، ان کے عقل مند لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرلینا مناسب ہوگا... اور صلح اس شرط پر کرلی جائے کہ مسلمان اس سال تو واپس لوٹ جائیں ، آئندہ سال آجائیں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہرکر عمرہ کرلیں ۔جب یہ مشورہ طے پاگیا تو انہوں نے بات چیت کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا، اس کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔سہیل آپ کے سامنے پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، بات چیت شروع ہوئی، سہیل نے بہت لمبی بات کی، آخر صلح کی بات چیت طے ہوگئی۔دونوں فریق اس بات پر راضی تھے کہ خوں ریزی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ صلح کرلی جائے۔صلح کی بعض شرائط بظاہر بہت سخت تھیں ۔ اس معاہدے میں یہ شرائط لکھی گئیں ۔ 1- دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔ 2- جو مسلمان اپنے ولی اور سرپرست کی اجازت کے بغیر مکہ سے بھاگ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے گا، الله کے رسول اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔ ( یہ شرط ظاہر میں مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھی، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ شرط بھی دراصل مسلمانوں کے حق میں تھی۔کیونکہ اس طرح بیت الله مسلمانوں سے آباد رہا اور دین کا کام جاری رہا۔) 3- کوئی شخص جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو اور وہ بھاگ کر قریش کے پاس آجائے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ 4- کوئی شخص، یا کوئی خاندان یا کوئی قبیلہ اگر مسلمانوں کا حلیف( معاہدہ برادر )بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور جو شخص یا خاندان یا قبیلہ قریش کا حلیف بننا چاہے تو وہ ان کا حلیف بن سکتا ہیں ۔ 5- مسلمانوں کو اس سال عمرہ کیے بغیر واپس جانا ہوگا، البتہ آئندہ سال تین دن کے لیے قریش مکہ کو خالی کردیں گے، لہذا مسلمان یہاں غیر مسلح حالت میں آکر ٹھہر سکتے ہیں اور عمرہ کرسکتے ہیں ۔ یہ شرائط بظاہر قریش کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف تھیں ۔اس لیے صحابہ کرام کو ناگوار بھی گزریں ، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے بھی ناگواری محسوس کی، وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آئے اور بولے: "ابوبکر! کیا حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول نہیں ہیں ۔" حضرت صدیق اکبررضی الله عنہ نے فرمایا: "بے شک حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول ہیں ۔" اس پر فاروق اعظم بولے: "کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ " ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے فرمایا: "بالکل! ہم مسلمان ہیں ۔" حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟" ابوبکرصدیق رضی الله عنہ بولے:، "ہاں ! بے شک وہ مشرک ہیں ۔" اب حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: تب پھر ہم ایسی شرائط کیوں قبول کریں ... جن سے مسلمان نیچے ہوتے ہیں ۔ اس وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے بہت ہی خوب جواب دیا، فرمایا: "اے عمر! وہ الله کے رسول ہیں ... ان کے احکامات اور فیصلوں پر سر جھکاؤ، الله تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہیں ۔" یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ فوراً بولے: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں ۔" اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسی قسم کے سوالات کیے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کی باتوں کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ بالکل وہی تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرما چکے تھے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "میں الله کا بندہ اور رسول ہوں میں کسی حالت میں بھی الله کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، وہی میرا مددگار ہے۔" اسی وقت حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ بول اٹھے: "اے عمر! جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں ، کیا تم اس کو سن نہیں رہے ہو؟ ہم شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔" تب حضرت عمر رضی الله عنہ بھی بولے : "میں شیطان مردود سے الله کی پناہ مانگتا ہوں ۔" نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: "اے عمر! میں تو ان شرائط پر راضی ہوں اور تم انکار کررہے ہو۔" چنانچہ حضرت عمر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے، میں نے اس وقت جو باتیں کی تھیں ، اگرچہ وہ اس تمنا میں تھیں ، کہ اس معاملے میں خیر اور بہتری ظاہر ہو، مگر اپنی اس وقت کی گفتگو کے خوف سے میں اس کے بعد ہمیشہ روزے رکھتا رہا، صدقات دیتا رہا، نمازیں پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا۔ پھر اس صلح کی تحریر لکھی گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولہ رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ معاہدہ لکھیں ، اس پر سہیل بن عمرو نے کہا: "یہ معاہدہ علی لکھیں گے یا پھر عثمان؟ " حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم فرمایا اور فرمایا لکھو: " بسم الله الرحمن الرحیم۔" اس پر سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا: "میں رحمٰن اور رحیم کو نہیں مانتا... آپ یوں لکھوائیں "بِسْمِکَ اَللّٰہُم "( یعنی شروع کرتا ہوں ، اے اللّٰه تیرے نام سے)حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا: "اسی طرح لکھ دو۔" انہوں نے لکھ دیا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "لکھو! محمد رسول اللّٰه نے ان شرائط پر سہیل بن عمرو سے صلح کی۔" حضرت علی رضی الله عنہ لکھنے لگے، لیکن سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا: "اگر میں یہ شہادت دے چکا ہوتا کہ آپ اللّٰه کے رسول ہیں ، تو پھر نہ تو آپ کو بیت اللّٰه سے روکا جاتا نہ آپ سے جنگ ہوتی ، اس لیے یوں لکھیے: "محمد بن عبداللہ "
Top