سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - فتح مبین
اس وقت تک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ عبارت لکھ چکےتھے، اس لیے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اس کو مٹادو (یعنی لفظ رسول اللّٰه کو مٹادو) حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے عرض کیا ۔میں تو کبھی نہيں مٹاسکتا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: مجھے دکھاؤ ۔یہ لفظ کس جگہ لکھاہے؟ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے لفظ آپ ﷺ کو دکھایا، حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کا حکم فرمایا، لکھو: یہ وہ سمجھوتا ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی ۔اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: الله کی قسم! میں الله کا رسول ہوں ، چاہے تم مجھے جھٹلاتے رہو اور میں ہی محمد ابن عبداللہ ہوں " " یہ معاہدہ ابھی لکھا جارہاتھا کہ اچانک ایک مسلمان حضرت ابو جندل ابن سہیل رضی الله عنہ اپنی بیڑیوں کو کھینچتے وہاں تک آپہنچے ۔مشرکوں نے انھیں قید میں ڈال رکھاتھا ۔ان کا جرم یہ تھا کہ اسلام کیوں قبول کیا....اسلام چھوڑ دو یا پھر قید میں رہو....یہ ابو جندل رضی اللّٰه عنہ اسی سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے جو معاہدہ طے کررہاتھا ۔یہ کسی طرح قید سے نکل کر وہاں تک آگئے تھے تاکہ اس ظلم سے نجات مل جائے ۔ انہیں دیکھ کر سب مسلمان خوش ہوگئے اور جان بچاکر نکل آنے پر انھیں مبارکباد دینے لگے ۔ادھر جونہی سہیل نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو یک دم کھڑا ہوا، اور ایک زناٹے دار تھپڑ ان کے منہ پر دے مارا ۔یہ بھی روایت آئی ہے کہ اس نے انھیں چھڑی سے مارا پیٹا ۔مسلمان ان کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑے ۔اب سہیل نے انھیں گریبان سے پکڑ لیا اور نبی کریم ﷺ سے بولا: اے محمد! یہ پہلا مسلمان ہے جو ہم لوگوں کے پاس سے یہاں آگیاہے، اس معاہدے کے تحت آپ اسے واپس کریں ، کیونکہ یہ معاہدہ لکھا جاچکاہے ۔ اس کی بات سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لے جاؤ ۔اس پر ابوجندل رضی اللہ عنہ بےقرار ہو کر بولے: کیا آپ مجھے پھر ان مشرکوں کے ساتھ واپس بھیج دینگے؟ اسلام لانے کی وجہ سے حضرت ابوجندل رضی الله عنہ پر بہت ظلم ڈھائے گئےتھے ۔لہذا اس صورت حال پر سب لوگ بری طرح بے چین ہوگئے ۔اس موقع پر رسول الله ﷺ نے ان سے فرمایا: ابوجندل! صبر اور ضبط سے کام لو، اللہ تعالٰی تمہارے لیے اور تم جیسے اور مسلمانوں کے لیے کشادگی اور سہولت پیدا فرمانے والا ہے، ہم قریش سے ایک معاہدہ کرچکے ہیں ۔اس معاہدے کی رو سے ہم تمہیں واپس بھیجنے کے پابند ہیں ۔ہم نے انہیں الله کے نام عہد دیا ہے لہٰذا اس کی خلاف ورزی ہم نہیں کریں گے۔" مسلمانوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے... وہ بےتاب ہوگئے... حضرت عمر رضی الله عنہ جیسے شخص بھی رو پڑے... لیکن معاہدے کی وجہ سے سب مجبور تھے۔اس طرح ابوجندل رضی الله عنہ کو واپس بھیج دیا گیا۔ ابوجندل رضی الله عنہ کا اصل نام عاص تھا۔ابوجندل ان کی کنیت تھی، ان کے ایک بھائی عبداللہ بن سہیل تھے جو کہ ان سے بھی پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔عبداللہ بن سہیل رضی الله عنہ اس طرح مسلمان ہوئے تھے کہ مشرکوں کے ساتھ بدر کے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے... لیکن بدر کے میدان میں آتے ہی یہ کافروں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔ اس معاہدے کے بعد بنو خزاعہ کے لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دوست قبیلے کی حیثیت سے شامل ہوگئے، یعنی مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔ معاہدہ لکھا جاچکا تو دونوں کی طرف سے اہم لوگوں نے اس پر بطور گواہ دستخط کیے، معاہدے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوانے اور قربانی کا حکم فرمایا۔بلکہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوایا اور قربانی کی، پھر تمام مسلمانوں نے بھی ایسا کیا۔ پھر جب مسلمان اس مقام سے واپس روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی۔اللّٰه تعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ خوش خبری سنائی کہ بے شک آپ کو ایک کھلی فتح دے دی گئی اور اللّٰه کی نعمت آپ پر تمام ہونے والی ہے۔ سفر کے دوران ایک مقام پر خوراک ختم ہوگئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہ نے یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو بتائی۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ایک چادر بچھانے کا حکم فرمایا۔پھر حکم فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ بچا کچا کھانا ہو، اس چادر پر ڈال دے۔صحابہ کرام رضی الله عنہہ نے ایسا ہی کیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔پھر سب کو حکم دیا، اس چادر سے اپنے اپنے برتن بھر لیں ، چنانچہ سب نے برتن بھرلیے، خوب سیر ہوکر کھایا، لیکن کھانا جوں کا توں بچارہا۔اس موقع پر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے اور ارشاد فرمایا: "اَشهدُ اَنٌ لَا اِلٰہ اِلااللہ وَاِنّی رَسُوْلُ الله اللّٰه کی قسم ان دو گواہیوں کے ساتھ جو شخص بھی اللّٰه تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا، دوزخ سے محفوظ رہے گا۔" جب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: "اے اللّٰه کے رسول! آپ کو یہ فتح مبارک ہو۔" اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو مبارک باد دی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں : "اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی مسلمانوں کو کوئی فتح نہیں ہوئی۔" یعنی یہ اس قدر بڑی فتح تھی... جب کہ لوگ اس کی حقیقت کو اس وقت بالکل نہیں سمجھ سکے تھے، جب معاہدہ لکھا جارہا تھا۔ سہیل بن عمرو جنہوں نے یہ معاہدہ لکھا تھا... بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔حجتہ الودع کے موقع پر انہیں اس جگہ پر کھڑے دیکھا گیا تھا جہاں قربانیاں کی جاتی ہیں ۔وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قربانی کے جانور پیش کررہے تھے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں ذبیح کررہے تھے۔اس کے بعد سہیل بن عمرو رضی الله عنہ نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا سر منڈانے کے لیے حجام بلایا۔اس وقت یہ منظر دیکھا گیا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا جو بال بھی گرتا تھا، سہیل بن عمرو اسے اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے۔اندازہ لگایئے ان میں کس قدر زبردست تبدیلی آچکی تھی... صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ رسول اللّٰه کا لفظ لکھے جانے پر طیش میں آگئے تھے اور اب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کو آنکھوں سے لگارہے تھے۔ اسی سال چھ ہجری کو شراب حرام ہوئی، حکم آنے پر لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب بارش کے پانی کی طرح نالیوں میں بہتی نظر آئی۔
Top