Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 37
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا
وَمَا نُرْسِلُ : اور ہم نہیں بھیجتے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ : مگر خوشخبری دینے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈر سنانے والے وَيُجَادِلُ : اور جھگڑا کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِالْبَاطِلِ : ناحق (کی باتوں) سے لِيُدْحِضُوْا : تاکہ وہ پھسلا دیں بِهِ : اس سے الْحَقَّ : حق وَاتَّخَذُوْٓا : اور انہوں نے بنایا اٰيٰتِيْ : میری آیات وَمَآ : اور جو۔ جس اُنْذِرُوْا : وہ ڈرائے گئے هُزُوًا : مذاق
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
کلمات یہ تھے : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ)[ الأعراف : 23 ] مستدرک حاکم (2؍672، ح : 4228) میں ہے کہ آدم ؑ نے عرش پر ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگی تو ان کی توبہ قبول ہوئی، مگر ذہبی نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق خود امام حاکم نے ”المدخل إلی الصحیح“ میں فرمایا کہ وہ اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی گھڑی ہوئی ہیں، یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں، سب میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا سکھایا گیا ہے، کسی نبی یا ولی کا واسطہ و وسیلہ نہیں بتایا گیا۔ مزید دیکھیے سورة مائدہ (35) اور بنی اسرائیل (57)۔ (فَتَابَ عَلَيْهِ) خالص توبہ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں، اپنے گناہ کے نقصان کا احساس، اس پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم (فَتَابَ عَلَيْهِ) سے معلوم ہوا کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں کہ لا محالہ ان کے نتیجے میں سزا ہی مل کر رہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، چاہے تو گناہ کی سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے، انسان توبہ کرلے تو گناہ کا اثر ختم کردیا جاتا ہے۔ (التَّوَّاب الرَّحِيْمُ) اس سے بڑھ کر کیا مہربانی ہوگی کہ خود دعا سکھائی اور پھر قبول بھی فرمائی۔
Top