Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور بہت سے رسولوں کی طرف جنھیں ہم اس سے پہلے تجھ سے بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسولوں کی طرف جنھیں ہم نے تجھ سے بیان نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔
وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ : جن رسولوں کے اسمائے گرامی اور واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد چوبیس (24) یا پچیس (25) ہے۔ آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، ایوب، شعیب، موسیٰ ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، الیاس، یسع، زکریا، یحییٰ ، عیسیٰ ، ذوالکفل (اکثر مفسرین کے نزدیک) اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ : جن انبیاء و رسل کے نام قرآن میں ذکر نہیں ہوئے ان کی تعداد کتنی ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جو بہت مشہور ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک حدیث میں آٹھ ہزار بتائی گئی ہے، مگر ان احادیث میں کلام ہے۔ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا : یعنی موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا، جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (253) پھر اگر موسیٰ ؑ کے اس شرف سے دوسرے انبیاء پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک بارگی نزول دوسرے انبیاء کے لیے موجب طعن کیسے ہوسکتا ہے۔ (رازی) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا بھی ثابت ہوا، جو لوگ یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان آیات و احادیث کا کیا جواب دیں گے جن میں صاف لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا ذکر ہے۔ اللہ کے ان بندوں نے اللہ تعالیٰ کو انسان سے بھی عاجز یعنی گونگا بنادیا اور اپنے خیال میں اسے اللہ تعالیٰ کی خوبی سمجھ رہے ہیں۔ امام احمد ابن حنبل ؒ ایسے ہی لوگوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ قرآن یا حدیث میں کہیں دکھاؤ کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے مگر نہ اس وقت ان کے مخالف یہ دکھا سکے نہ اب کوئی دکھا سکتا ہے۔
Top