بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
حلال کو حرام قرار دینے کی ممانعت یہاں سے سورة التحریم شروع ہو رہی ہے۔ اس کی ابتدائی آیات کا سبب نزول ایک واقعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر کے بعد تھوڑی دیر کو ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ تھوڑا تھوڑا وقت ہر ایک کے پاس گزارتے تھے۔ ایک دن جو حضرت زینب بنت جحش ؓ کے پاس تشریف لے گئے ان کے پاس شہد پی لیا حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اور حفصہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی تشریف لائیں تو ہم کہہ دیں گے کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے (یہ ایک قسم کا گوند ہوتا تھا) چناچہ آپ دونوں میں سے کسی ایک کے پاس تشریف لائے تو یہی بات عرض کردی، آپ نے فرمایا کہ میں نے مغافیر تو نہیں کھایا بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور میں نے قسم کھالی ہے کہ اس کے بعد ہرگز نہیں پیوں گا۔ اس پر آیت کریمہ ﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ نازل ہوئی۔ (صحیح البخاری صفحہ 729: ج 2) یہ قصہ ذرا تفصیل سے صحیح بخاری صفحہ 793 میں بھی ہے اس میں کچھ اختلاف روایت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے رسول اللہ ﷺ کو اسوہ اور مقتداء بنا کر بھیجا تھا اس لیے طرح طرح کے واقعات ظہور پذیر ہوئے تاکہ امت کو اپنے حالات اور معاملات میں ان سے سبق ملے۔ آپ کی بعض بیویوں نے جو ایسا مشورہ کیا تھا کہ آپ تشریف لائیں گے تو ہم ایسا ایسا کہیں گے یہ شوہر اور بیوی کی آپس کی دل لگی کی بات ہے اس میں یہ اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ ان عورتوں نے رسول اللہ ﷺ کو کیوں ایذا پہنچائی، جب یہ عرض کیا گیا کہ آپ نے گوند کھایا ہے تو آپ نے فرمایا میں نے گوند نہیں کھایا، میں زینب کے پاس سے شہد پی کر آیا ہوں اور ساتھ ہی قسم بھی کھالی کہ اب میں نہیں کھاؤں گا اور سوال کرنے والی بیوی سے یہ ارشاد فرمایا کہ کسی کو نہیں بتانا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے نبی جو چیزیں اللہ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہیں آپ ان کو اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہیں، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں، یہ حرام قرار دینا ان کی خوشنودی کے لیے ہے حلال کو حرام قرار کرلینا اور پھر اس پر قسم کھانا آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ ﴿وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ001﴾ (اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کی عظمت بتائی ہے کہ ترک اولیٰ بھی آپ کے مقام رفیع کے خلاف ہے۔ یہ بھی توقع نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے بھی معاف فرما دیا (آپ نے اعتقا داً حلال کو حرام قرار نہیں دیا تھا البتہ ترک مباح پر قسم کھالی تھی) ۔
Top