Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 279
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۖۚ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِيْ شَكٍّ : کسی شک میں مِّنْ : سے دِيْنِيْ : میرے دین فَلَآ اَعْبُدُ : تو میں عبادت نہیں کرتا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَعْبُدُوْنَ : تم پوجتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن اَعْبُدُ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں الَّذِيْ : وہ جو يَتَوَفّٰىكُمْ : تمہیں اٹھا لیتا ہے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنین
کہہ دو ، اے لوگو، اگر تم میرے دین کے باب میں شک میں ہو تو سن لو کہ میں ان کو نہیں پوجتا جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بلکہ میں اس اللہ کو پوجتا ہوں جو تم کو وفات دیتا ہے اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے بنوں
104 تا 107:۔ قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ښ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۔ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۚ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔ وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ۔ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۔ آخری فیصلہ کن اعلان : قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ۔۔۔ الایۃ۔ یہ نبی ﷺ کی طرف سے آخری فیصلہ کن اعلان کرایا جا رہا ہے تاکہ کفار کے ذہن کے کسی گوشے میں اگر کوئی طمعِ خام اس قسم کا ہو کہ دباؤ ڈال کر آپ کو کچھ نرم کیا جاسکتا ہے تو وہ اس کو اپنے ذہن سے نکال دیں اور جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں وہ کر گزریں اس قسم کا اعلان آخری مرحلے میں تمام انبیاء سے ماثور ہے اور یہ درحقیقت قوم سے رسول کا اعلان براءت ہوتا ہے جس کے بعد ہجرت کا مرحلہ آجاتا ہے۔ الذی یتوفاکم کی صفت کا حوالہ یہاں بطور تنبیہ وتذکیر ہے یعنی وہی خدا جو تمہیں وفات دیتا ہے اور جس کے آگے جواب دہی کے لازماً تمہیں حاضر ہونا ہے۔ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ، یعنی مجھے جو حکم ملا ہے وہ یہی ہے کہ میں مومن و موحد بنوں اس سے قطع نظر کہ کیا تم کیا روش اختیار کرتے ہو۔ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ۔۔ الایۃ۔ یہ اوپر والی بات ہی کی مزید وضاحت ہے۔ ایمان کی اصل خصوصیت اللہ واحد کی طرف یکسوئی اور شرک کے تام شوائب سے پورا پورا اجتناب ہے۔ وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ۔۔ الایۃ، یہ شرک کے باطل ہونے کی دلیل ہے کہ جب اذن الٰہی کے بغیر نہ کوئی چیز نفع پہنچا سکتی ہے نہ ضرر تو اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو پکارنا اپنے نفس پر بھی بہت بڑا ظلم ہے اور یہ خدا کے بھی سب سے بڑے حق کو تلف کرنا ہے۔ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ۔۔۔ الایۃ، اوپر والی بات ہی کی وضاحت ایک دوسرے اسلوب سے جس سے ان تمام تصورات کی نفی ہوجاتی ہے جن کی بنا پر مشرکین شرکاء و شفعاء کو پوجتے تھے۔ آخر میں غفور رحیم کی صفات کے حوالہ سے مقصود اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جب خدا خود مغفرت فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے تو بندے اسی کے دامن رحمت میں پناہ لیں۔ دوسروں کا سہارا کیوں ڈھونڈیں !
Top