بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر ! جو چیز اللہ نے آپ پر حلال فرمائی ہے اس کو اپنے لئے کیوں حرام فرماتے ہیں (کیا) اپنی بیویوں کی رضامندی کے لئے۔ اور اللہ بخشنے والے مہربان ہیں
آیات 1 تا 7 اسرار ومعارف۔ حضرت رسول کریم ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے پاس قیام فرمایا اور شہد پیا جب حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے کہا آپ نے مغافیر پیا ہے ؟ یہ ایک قسم کی گوند تھی جس کی بوناگوار ہوتی تھی آپ نے فرمایا نہیں میں نے شہد پیا ہے تو انہوں نے عرض کیا شاید اس میں کچھ مغافیر مل گیا ہو آپ کو بوناگوار ہوتی تھی لہذا آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ شہد نہیں پیا کریں گے مگر فرمایا کہ کسی اور سے تذکرہ نہ کرنا کہ حضرت زینب ؓ کی دل شکنی نہ ہومگر انہوں نے حضرت حفصہ سے بات کردی جو دراصل عشق رسول سے مجبور ہو کر انہیں دوسری ازواج مطہرات کی نسبت اپنے پاس زیادہ ٹھہرانے کی کوشش تھی کہ آپ بھی ایسا ہی کہیں مگر اللہ نے بذریعہ وحی سب واضح کردیا نیز حلال چیز کو حرام کرنے پر بھی منع فرما کر کفارہ کا حکم دیا کہ آپ تو ایک جہان کے راہ نما تھے ایسا ہوجاتا تو بعد والوں پر بہت تنگی آتی تو ارشاد ہوا کہ اے نبی ایک حلال نعمت کو آپ محض اپنی ازواج مطہرات کو خوش کرنے کے لیے اپنے اوپر کیوں حرام فرماتے ہیں۔ اللہ بہت بڑا بخشنے والا اور درگزر کرنے والا ہے لہذا اس نے قسم تورنے کا کفارہ مقرر کردیا ہے لہذا آپ نے ایک غلام آزاد فرما کر قسم توڑ دی اللہ ہی تم سب کا مالک ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے بڑا حکمت والا ہے۔ کہ جب نبی (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ کو سرگوشی میں بتایا یعنی یہی شہد نہ کھانے کی قسم کے بارے میں تو انہوں نے دوسری اہلیہ مبارکہ کو بتادیا۔ حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ کو ، تو اللہ نے آپ پر بذریعہ وحی بیان کردیا تو آپ نے اشارۃ ان سے تذکرہ کردیا۔ حسن خلق کے باعث تمام بات ارشاد نہ فرمائی صرف اشارۃ بتادیا کہ میں نے تو اسے راز رکھنے کو کہاتھانیز حضرت حفصہ کے ایسا عرض کرنے پر کہ آپ نے مغافیر تو نہیں پیا ؟ آپ خفا ہوئے اور بتایا کہ سب راز اللہ رب العزت نے جو ہر بات کی خبر رکھتا ہے مجھے بتادیا ہے اب چونکہ تمہارے دلوں میں جو بات آئی مناسب نہیں اگرچہ عشق رسول میں آئی مگر دوسروں کے حقوق کے خلاف تو سوچا جو ازواج مطہرات کی شان کے خلاف ہے لہذا اللہ سے توبہ کرو لیکن اگر تم اس طرح نبی (علیہ السلام) کو صرف خاوند سمجھ کرمغلوب کرنا چاہو جو اکثر بیویوں کی عادت ہوتی ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ آپ کا ساتھی اور جبرائیل امین اور نیک مسلمان سب آپ کے خادم جبکہ اللہ کے سارے فرشتے اس پر مزید ہیں۔ مسئلہ۔ کسی حلال چیز کو بوجہ بیماری یاعذر ترک کرنا جائز ہے مگر اسے عقیدۃ حرام نہ سمجھناچاہیے تفسیر مظہری میں ہے کہ آپ نے حضرت حفصہ ؓ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو وحی آئی کہ بکثرت روزے رکھنے والی اور نماز ادا کرنے والی ہے نیز جنت میں آپ کی ازواج میں شامل ہے لہذا آپ نے کوئی طلاق نہ دی اور نہ نکاح فرمایا کہ ارشاد ہوتا اگر تم تائب نہ ہوئیں تو قریب ہے کہ اللہ تمہیں طلاق دینے کا حکم دیں اور دوسری بیویاں عطا فرمادیں جو اطاعت گزار ایمان والیاں ، نمازگزار ، توبہ کرنے والیاں ، بندگی کرنے والیاں ، اور روزے رکھنے والیاں جن میں کنواری اور بیاہی شامل ہیں مگر آپ نے اس کے بعد نکاح نہیں فرمایا گویا سب اوصاف انہیں ازواج مطہرات میں موجود ہیں اور جو گرفت آئی وہ ان کی شان کے مطابق تھی نیز انہوں نے محبت رسول میں یہ کیا تھا کہ پھر بھی ارشاد ہوا کہ ایسانہ کرنا چاہیے تھا۔ اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو دوزخ سے بچاؤ اور ہر معاملے کو اللہ اور اس کے رسول مقبول کی اطاعت کے مطابق کرو کہ دوزخ بہت سخت جگہ ہے اور اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہیں جن کو دنیا میں پوجاجاتا رہا پھر اس پر جو فرشتے مقرر ہیں وہ بڑے سخت مزاج اور تندخو ہیں رعایت نہیں کرتے اور اللہ کے حکم سے ، سرمو ، انحراف نہیں کرتے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا حکم دیاجائے۔ مسئلہ۔ بیوی بچوں کو حلال ، حرام اور شریعت پر عمل کرنے کے لیے تعلیم وتربیت ہر آدمی کی ذمہ داری ہے اور اے کفار آج اپنے کفر پر جواز کے لیے بہانے نہ تراشو بلکہ جو کچھ کرتے رہے ہو آج اسی کا بدلہ پاؤ گے اور رسول اللہ کی نافرمانی کے لیے تمہارے پاس کوئی عذر نہیں کہ رسول اللہ کی تعلیمات خود عمل کرنے والے کی بھلائی کے لیے ہوتی ہیں پھر معذرت کیسی۔
Top