بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Bayan-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے آپ (قسم کھا کر) اسکو (اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں (پھر وہ بھی اپنی بیبیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے) اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (ف 1)
1۔ سبب نزول اول کی آیتوں کا حضرت عائشہ ؓ سے صحیح بخاری وغیرہ میں اس طرح منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول شریف تھا کہ بعد عصر کھڑے کھڑے بیبیوں کے پاس تشریف لاتے، ایک بار حضرت زینب ؓ کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہرے اور شہد پیا، تو مجھ کو رشک آیا، میں نے حضصہ سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس تشریف لاویں وہ یوں کہے کہ آپ نے مغافیر نوش فرمایا ہے (یہ ایک گوند ہے جو کر یہ الرائح ہے) چناچہ ایسا ہی ہوا، آپ نے فرمایا کہ میں نے تو شہد پیا ہے، ان بی بی نے کہا کہ شاید کوئی مکھی اس کے درخت پر بیٹھ گئی ہوگی اور اس کا رس چوس لیا ہوگا، آپ نے بقسم فرمایا کہ میں پھر شہد نہ پیوں گا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب کا جی برا نہ ہو اس کے اخفاء کی تاکید فرمائی۔ مگر ان بی بی نے دوسرے سے کہہ دیا، اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ شہد پلانے والی ہیں اور حضرت سودہ اور حضرت صفیہ صلاح کرنے والی ہیں۔
Top