بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : ایک کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتُخْرِجَ : تاکہ تم نکالو النَّاسَ : لوگ مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَي النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّھِمْ : ان کا رب اِلٰي : طرف صِرَاطِ : راستہ الْعَزِيْزِ : زبردست الْحَمِيْدِ : خوبیوں والا
الٓر یہ کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالیں جو زبردست ہے خوبیوں والا
1:۔ امام عبد ابن منذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ” التخرج الناس من الظلمت الی النور “ سے مراد ہے گمراہی سے ہدایت کی طرف۔ 2:۔ امام ابن بن حمید، ابویعلی، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں حاکم نے (اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو آسمانوں پر اور (سب) انبیاء (علیہم السلام) پر فضلیت عطاء فرمائی ان سے پوچھا گیا آسمان والوں پر ان کی فضیلت کیسی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان والوں کے لئے فرمایا (آیت ) ” ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم “ (الانبیاء آیت 29) اور محمد ﷺ کے لئے فرمایا (آیت) ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ (الفتح آیۃ : 2) اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آگ سے چھٹکارا لکھ دیا ابن عباس ؓ سے پھر پوچھا گیا کہ انبیاء (علیہم السلام) پر ان کی فضیلت کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ اور محمد ﷺ کے لئے فرمایا (آیت ) ” وما ارسلنک الا کافۃ اللناس “ (سبا آیت 28) یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے (تمام) انسانوں اور جنوں کا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ 4:۔ امام احمد نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس وحی عربی زبان میں : 5:۔ امام ابن مردویہ نے کلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کی طرف عربی زبان میں وحی لے کر آتے تھے اور وہ ہر نبی کے پاس نازل ہوتے تھے ان کی قوم کی زبان کے ساتھ۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ ‘ یعنی اس کی قوم کی لغت کے ساتھ (جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوتے تھے) عجمی ہوتی تو عجمی زبان میں (وحی آتی تھی) اور (قوم کی زبان) سریانی ہے توسریانی زبان میں (وحی آتی تھی) تاکہ (وہ پیغمبر) ان کے لئے اللہ کے احکام کو کھول کر بیان کرے اور اپنی ہر حجت قائم کردے۔ 7:۔ امام خطیب نے تالی التلخیص میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ سے مراد ہے کہ محمد ﷺ کو ان کی قوم کی عربی زبان کے ساتھ بھیجا گیا۔ 8:۔ امام ابن مردویہ نے عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ ” بلسان قومہ “ سے مراد ہے کہ قرآن کو قریش کی زبان میں نازل کیا گیا۔ 9:۔ امام ابن منذر نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ قرآن کو قریش کی زبان میں نازل کیا گیا۔ 10:۔ امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا کہ وحی نازل نہیں ہوئی مگر عربی زبان میں پھر ہر نبی نے اپنی قوم کی زبان میں اس کا ترجمہ کیا اور فرمایا قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی اور جو شخص جنت میں داخل ہوگا تو وہ عربی زبان میں بات کرے گا۔ 11:۔ امام ابن ابی حاتم نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ مجوسیوں کا اور عرب کے نصاری کا ذبیحۃ مت کھاؤ کیا تم ان اہل کتاب سمجھتے ہو ؟ اور وہ اہل کتاب نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ ‘ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا گیا ان کی قوم کی زبان میں اور محمد ﷺ کو ان کی قوم کی زبان میں اور محمد ﷺ کو ان کی قوم کی زبان عربی میں بھیجا گیا لیکن انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کو قبول نہیں کیا اور جو کچھ محمد ﷺ پر اتارا گیا انہوں نے اس کی بھی اتباع نہیں کی اس کے لئے ان کے ذبائح مت کھاؤ کیونکہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں
Top