Jawahir-ul-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
مالک روز جزا کا6
6: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ لفظ دین قرآن مجید میں کئی معنون میں استعمال ہوا ہے۔ چناچہ بعض مقامات میں پوری شریعت کو دین کہا گیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہے وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران 85) (یعنی جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین کو پسند کرلیا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اکثر جگہوں میں الدین اللہ کی توحید، اس کی خالص عبادت اور پکار کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ سورة یوسف (علیہ السلام) نے قیدیوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا۔ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ۔ نہیں حکم مگر اللہ کے لیے اس نے حکم دیا ہے کہ مت عبادت کرو اس کے سوا کسی کی یہی ہے دین محکم سورة زمر رکوع 1 میں فرمایا۔ۭاَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُخبردار اللہ ہی کے لیے خالص عبادت اور پکار۔ اور سورة حم مومن رکوع 2 میں فرمایا فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (سو اللہ کو پکارو خالص کر کے اس کے لیے عبادت کو گو کافروں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ مگر جہاں لفظ الدین یوم کا مضاف ہو وہاں اس کے معنی جزاء کے ہوتے ہیں جیسا کہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں ہے۔ یعنی روز جزاء کا مالک اور اس دن میں تمام تصرفات اور اختیارات کا واحد مختار اور اعمال کی جزا وسزا مقرر کرنے والا اور اعمال پر نیک وبد نتائج مرتب کرنے والا اور اختیار رکھنے والا یہ مذکورہ دعویٰ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکی تیسری دلیل ہے۔ روز جزا کی اہمیت : اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور نظام ربوبیت کے تحت ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا جدھر دیکھو خشکی اور تری پر اس کی رحمت اور نعمت کی چادریں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے روح کی نشوو نما کا انتظام بھی فرمایا اور راہ ہدایت اور صراط مستقیم بتانے کے لیے کتابیں اور رسول بھیجے اور آخر میں اپنے آخری پیگمبر حضرت محمد ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرما کر نعمت اسلام کی تکمیل فرمادی۔ اس سارے نظام ربوبیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا دن ضرور ہونا چاہئے۔ جس میں اس امر کا فیصلہ ہوسکے کہ کس نے اللہ کی ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کیا اور کس نے ناشکری کی۔ کس نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر عمل کیا۔ اور اس کے احکام کی تعمیل کی اور کس نے اس کی ہدایت کو اور اس کے احکام کو ٹھکرایا۔ ایسا دن تو دنیا میں ہو نہیں سکتا کیوں کہ یہ دار العمل ہے اس لیے لا محالہ ایسا دن دنیا کے اختتام پر ہی ہوسکتا ہے اسی دن کا نام یوم الدین ہے اور اسی کو یوم آخر یا روز جزا وغیرہ کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ دن دنیا کے ختم ہونے پر آئے گا۔ اور اس میں نیک وبد اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس دن میں ہر قسم کے تمام اختیارات صرف اللہ کے قبضہ میں ہوں گے۔ وہاں مجازی طور پر بھی کسی کو کوئی اختیار باقتدار حاصل نہیں ہوگا۔ اہل کتاب کا تصور آخرت : اہل کتاب کے علماء سوء ان کے احبارو رہبان اور ان کے پیروں اور پادریوں کو چونکہ حق چھپانے، غلط بیانی کرنے اور تورات اور انجیل کی آیتوں میں لفظی اور معنوی تحریفیں اور تبدیلیاں کرنے کی عادت پڑچکی تھی اس لیے انہوں نے اپنے عوام میں بہت سے غلط عقائد پھیلا رکھے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا ان کے کرتوتوں کو ظاہر فرمایا ہے۔ تاکہ امت محمدیہ اس سے عبرت حاصل کرے چناچہ ارشاد ہے۔ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْن (ال عمران 75) (پھر وہ اسے سمجھ لینے کے بعد بدل ڈالتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں) ایک جگہ فرمایا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (پھیر دیتے ہیں وہ کلام کو اس کے مواقع سے) اہل کتاب کے علماء اور گدی نشینوں کو حق پوشی سے منع فرماتے ہوئے فرمایا۔ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن (اٰل عمران) کیوں مخلوط کرتے ہو حق کو باطل کے ساتھ اور کیوں چھپاتے ہو حق کو حالانکہ تم جانتے ہو۔ یہود اور نصاریٰ کے احبار اور رہبان سوء، غیر اللہ کی نذر ونیاز اور کئی دوسرے ذرائع سے حرام مال بھی کھاتے تھے۔ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ۭ۔ یہ لوگ غلط باتیں سننے کے عادی ہیں۔ بڑے حرام خور ہیں۔ اہل کتاب کے پادریوں اور صوفیوں نے آخرت کے بارے میں ایک نہایت ہی غلط تصور عوام کے ذہن نشین کر رکھا تھا۔ اپنے متعلق تو انہوں نے عوامی ذہن میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اور اللہ کے بیٹے ہیں یعنی جس طرح باپ کی صفات بیٹوں میں ہوتی ہیں اسی طرح اللہ کی صفات ہم میں موجود ہیں۔ اس لیے آخرت میں ہمیں تو کسی قسم کا عذاب ہوگا ہی نہیں۔ وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ (المائدہ : 18) یہود اور نصاری نے کہ اہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اور عوام کو انہوں نے یہ یقین دلا رکھا تھا کہ جنت ان کے لیے ریزرو ہے ان کے سوا اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً (البقرہ :80) (انہوں نے کہا کہ ہمیں تو صرف چند دن عذاب آئے گا۔ اہل کتاب کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کے پیر اور پادری حاجت روا، مشکل کشا اور شفیع غالب ہیں اور قیامت کے دن ان کو عذاب سے بچا لیں گے۔ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ (التوبہ :31) انہوں نے اپنے پادریوں اور پیروں کو اور مسیح بن مریم کو خدا کے سوا رب بنا لیا تھا۔ سورة فاتحہ میں جس طرح دوسرے باطل عقیدوں کی تردید کی گئی ہے اسی طرح مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِسے اہل کتاب کے غلط تصور آخرت کی تردید فرمائی کہ قیامت کے دن کا مالک صرف اللہ ہی ہے اور سب کے نیک وبد اعمال کو جاننے والا بھی وہی ہے۔ اس لیے وہی لوگوں کے اعمال کی جزا وسزا کا مالک ہے اور وہ جس طرح چاہے اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس کے سوا کسی میں قدرت نہیں کہ اعمال کا حساب لے اور ہر ایک کے حسب حال اور حسب نیت نیک وبد اعمال کی جزا اور سزا دے۔ یہود ونصاری کے اس غلط وتصور آخرت کا قرآن مجید میں تفصیلاً بھی رد کیا گیا ہے چناچہ اہل کتاب کے اس باطل عقیدے کی رد میں کہ ہم اللہ کے پیارے ہیں اور ہمیں عذاب نہیں ہوگا اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا۔ لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ ۭ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ۙ وَلَا يَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا (النساء : 123) یعنی نجات نہ تو تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزون پر (بلکہ مالک الملک کا قانون یہ ہے کہ) جو کوئی بھی برائی کرے گا اسے ضرور اس کا بدلہ ملے گا اور پھر وہاں اللہ کے سوا کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔ اور ایک جگہ فرمایا۔ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 81۝ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (البقرہ : 81، 82) جس نے برائی کمائی اور اسے اس کے گناہوں نے گھیر لیا۔ یہ لوگ جہنمی ہیں اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کیے یہ لوگ جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے اس آیت میں لفظ کسب سے اس طرف اشارہ ہے کہ نجات اور عذاب اور ثواب و عقاب کا تعلق عمل سے ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ اعمال تو برے ہوں اور شرک سے ملوث ہوں۔ لیکن کسی پیغمبر، ولی یا بزرگ کی مدد اور سفارش سے نجات مل جائے بلکہ وہاں تو اس اصول پر عمل ہوگا۔ جیسا کروگے ویسا پاؤ گے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں لفظ مالک سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فعل اور اعمال کی جزاء وسزا عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی مجبور نہیں بلکہ وہ مالک ہے اور اپنے ملک میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے سامنے کسی کو چوں چرا کرنے کی جراءت نہیں۔ دنیا وآخرت کا مالک ومختار : دنیا اور آخرت میں مالک ومختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْن (الانبیاء :23) جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں اگرچہ اللہ کے سوا کئی مالک ومختار ہونے کے مدعی بن گئے اور مشرکین نے بھی اپنے معبودوں کو مالک ومختار سمجھے رکھا۔ مگر آخرت میں مشرکین کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ وہ غلطی پر تھے۔ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی مالک ومختار نہیں تھا۔ فرعون اور نمرود جیسے سرکش حکمرانوں کو بھی قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا۔ کہ ان کے سب دعوے غلط تھے اور آج وہ بالکل بےبس اور بےیارو مددگار ہیں۔ ان کے اختیار میں کچھ نہیں اور تمام معاملات صرف اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ (الانفطار :19) اس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کوئی اختیار نہیں رکھے گی اور حکم صرف اللہ ہی کا ہوگا اسی طرح قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں مالک ومختار صرف اللہ ہی ہے۔
Top