بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے تو رضا مندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان
خلاصہ تفسیر
اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے آپ (قسم کھا کر) اس کو (اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں (پھر وہ بھی) اپنی بیبیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (یعنی گو کسی مباح کا ترک کردینا جائز ہے اور اس ترک کا موکد بالقسم کرنا بھی کسی مصلحت سے جائز ہے لیکن تاہم خلاف اولیٰ ہی خصوصاً جبکہ اس کا داعی بھی ضعیف ہو۔ یعنی بیبیوں کی رضا جوئی ایسے امر میں جس میں ان کا راضی کرنا ضروری نہ تھا) اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (کہ گناہ تک کو معاف کردیتا ہے اور آپ سے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہوا اسلئے یہ عتاب نہیں بلکہ شفقةً ورافة آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے ایک جائز نفع کو ترک کرکے کیوں تکلیف اٹھائی اور چونکہ آپ نے قسم کھالی تھی اسلئے عام خطاب سے قسم کا کفارہ دینے کی نسبت ارشاد فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کھولنا (یعنی قسم توڑنے کے بعد اسکے کفارہ کا طریقہ) مقرر فرما دیا ہے اور اللہ تمہارا کار ساز ہے اور وہ بڑا جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (اسلئے وہ اپنے علم و حکمت سے تمہاری مصلحتوں اور ضرورتوں کو جان کر تمہاری بہت سی دشواریوں کو آسان کردینے کے طریقے مقرر فرما دیتا ہے چناچہ کفارہ کے ذریعہ قسم کی پابندی کی کلفت کا علاج کردیا) اور (آگے بیبیوں کو سناتے ہیں کہ وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ پیغمبر ﷺ نے اپنی کسی بی بی سے چپکے سے ایک بات فرمائی (وہ بات یہی تھی کہ میں پھر شہد نہ پیوں گا مگر کسی سے کہنا نہیں) پھر جب اس بی بی نے وہ بات (دوسری بی بی کو) بتلا دی اور پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے (بذریعہ وحی) اس کی خبر کردی تو پیغمبر نے (اس ظاہر کردینے والی بی بی کو) تھوڑی سی بات تو جتلا دی (کہ تو نے ہماری یہ بات دوسری سے کہہ دی) اور تھوڑی بات کو ٹال گئے (یعنی آپ کا کرم اس غایت تک ہے کہ اپنے حکم کے خلاف کرنے پر جو بی بی کی شکایت کرنے بیٹھے تو شکایت کے وقت بھی اس کہی ہوئی بات کے پورے اجزاء کا اعادہ نہیں فرمایا کہ تو میری یہ بات کہہ دی اور یہ بھی کہہ دی بلکہ کچھ اجزاء کا ذکر کیا اور کچھ اجزاء کا نہیں تاکہ جو بی بی مخاطب ہے اس کو گمان ہو کہ ان کو اتنی ہی بات کہنے کی خبر ہوئی ہے زائد کی نہیں ہوئی تو شرمندگی کم ہو وھذا اسھل الاقوال فی تفسیر ھذین البعضین) سو جب پیغمبر نے اس بی بی کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو اس کی کسی نے خبر کردی، آپ نے فرمایا کہ مجھ کو بڑے جاننے والے بڑے خبر رکھنے والے (یعنی خدا) نے خبر کردی (یہ بیبیوں کو شاید اس لئے سنایا کہ رسول اللہ ﷺ کا پورے راز پر مطلع ہونا سنکر آپ کے کریمانہ معاملہ سے اپنی کارروائی پر زیادہ شرمندہ ہوں اور توبہ کریں چناچہ آگے خود بیبیوں کو توبہ وغیرہ کا خطاب ہے کہ) اے (پیغمبر کی) دونوں بیبیوں اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو (بہتر ہے کیونکہ مقتضیٰ توبہ کا موجود ہے وہ یہ کہ) تمہارے دل (اس طرف) مائل ہو رہے ہیں (کہ دوسری بیبیوں سے ہٹا کر آپ کو اپنا ہی بنالیں اور گو یہ امر باعتبار اسکے کہ اصل مقتضی اس کا حب رسول ہے قبیح نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں دوسروں کے حقوق کا اتلاف اور دل شکنی لازم آتی ہے اور مستلزم قبیح قبیح ہوتا ہے اس اعتبار سے قبیح وموجب لا متوبہ ہے) اور اگر (اسی طرح) پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کارروائیاں کرتی رہیں تو (یاد رکھو کہ) پیغمبر کا رفیق اللہ ہے اور جبریئل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے (آپ کے) مددگار ہیں (مطلب یہ کہ تمہاری ان سازشوں سے آپ کا کوئی ضرر نہیں ہے بلکہ تمہارا ہی ضرر ہے کیونکہ جس شخص کے حامی ایسے ہوں اسکے خلاف مزاج کارروائیاں کرنے کا انجام ظاہر ہے کہ برا ہی برا ہے اور چونکہ بعضے اسباب نزول میں حضرت عائشہ وحفصہ کے علاوہ اور بیبیاں بھی شریک تھیں جیسے حضرت سودہ وصفیہ، اسلئے آگے صیغہ جمع سے خطاب فرماتے ہیں کہ تم یہ وسوسہ دل میں نہ لانا کہ آخر تو مرد کو بیبیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لئے چارونا چار ہماری سب باتیں سہی جاویں گی سو یہ سمجھ لو کہ) اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دیدیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیبیاں دی دے گا جو اسلام والیاں ایمان والیاں فرمانبرداری کرنے والیاں توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے والیاں روزہ رکھنے والیاں ہوں گی کچھ بیوہ اور کچھ کنواریاں (بعض مصالح سے بیوہ بھی مرغوب ہوتی ہے جیسے تجربہ سلیقہ ہم عمری وغیرہ اس لئے اس کو بھی اوصاف رغبت میں شمار فرمایا)
معارف و مسائل
آیات تحریم کا واقعہ نزول
صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ وغیرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول شریف تھا کہ عصر کے بعد کھڑے کھڑے سب بیبیوں کے پاس (خبر گیری کے لئے) تشریف لاتے تھے۔ ایک روز حضرت زینب کے پاس معمول سے زیادہ ٹھیرے اور شہد پیا تو مجھ کو رشک آیا اور میں نے حفصہ سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس تشریف لادیں وہ یوں کہے کہ آپ نے مغافیر نوش فرمایا ہے۔ مغافیر ایک خاص قسم کا گوند ہے جس میں کچھ بدبو ہوتی ہے چناچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو شہید پیا ہے۔ ان بی بی نے کہا کہ شاید کوئی مکھی مغافیر کے درخت پر بیٹھی ہو اور اس کا رس چوسا ہو (اسی وجہ سے شہد میں بھی بدبو آنے لگی) رسول اللہ ﷺ بدبو کی چیزوں سے بہت پرہیز فرماتے تھے اسلئے آپ نے قسم کھالی کہ پھر میں شہد نہ پیؤں گا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب کا جی برا نہ ہو اس کے اخفاء کی تاکید فرمائی مگر ان بی بی نے دوسری سے کہہ دیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ شہد پلانے والی ہیں اور حضرت عائشہ وسودہ وصفیہ صلاح مشورہ کرنے والی اور بعض روایات میں یہ قصہ دوسری طرح بھی آیا ہے۔ ممکن ہے کئی واقعے ہوں اور ان سب کے بعد یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں (ازبیان القرآن)
خلاصہ ان آیات کا یہ ہے کہ اس واقعہ میں جو رسول اللہ ﷺ نے ایک حلال چیز یعنی شہد کو بذریعہ قسم اپنے اوپر حرام کرلیا تھا یہ فعل جبکہ کسی ضرورت و مصلحت سے ہو تو جائز ہے گناہ نہیں۔ مگر اس واقعہ میں ضرورت ایسی نہ تھی کہ اس کی وجہ سے آپ خود کوئی تکلیف اٹھاویں اور ایک حلال چیز کو چھوڑ دیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ کام ازواج مطہرات کو راضی کرنے کیلئے کیا تھا، اور ایسے معاملے میں ان کا راضی کرنا آپ کے ذمہ لازم نہ تھا اسلئے اللہ تعالیٰ نے ازروئے شفقت و عنایت فرمایا۔
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْم
اس آیت میں بھی قرآن کریم کے عام اسلوب کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو آپکا نام لے کر خطاب نہیں کیا بلکہ یایھا النبی کے لقب سے خطاب فرمایا جو آپ کا خصوصی اعزازو اکرام ہے اور پھر فرمایا کہ اپنی ازواج کی رضا جوئی کے لئے آپ اپنے اوپر ایک حلال چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں۔ یہ کلام اگرچہ ازروئے شفقت ہوا مگر صورت جواب طلبی کی تھی جس سے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ شاید آپ سے کوئی بڑی غلطی ہوگئی اسلئے ساتھ ہی فرمایا واللہ غفور رحیم یعنی اگر گناہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مغفرت اور معاف کرنے والے ہیں۔ مسئلہکسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةحرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔ اور اگر عقیدة حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے۔ اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ نہ عقیدة حرام سمجھے نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلاکراہت جائز ہے۔ بعض صوفیائے کرام سے جو ترک لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
واقعہ مذکورہ میں رسول اللہ ﷺ نے قسم کھالی تھی نزول آیت کے بعد اس قسم کو توڑا اور کفارہ ادا فرمایا جیسا کہ درمنثور کی روایت میں ہے آپ نے ایک غلام کفارہ قسم میں آزاد کیا (ازبیان القرآن)
Top