بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
تعلیم صبر و استقامت وعدل و انصاف در حقوق و امور معاشرت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا النبی لم تحرم ...... الی ...... انما تجزون ما کنتم تعملون “۔ (ربط) گزشتہ سورت میں طلاق وعدت کے بعض اہم احکام کا بیان تھا اب اس سورت میں بعض ایسے جذبات طبعیہ کا بیان ہے جن کے باعث خانگی زندگی کا اعتدال و توازن ختم ہوسکتا ہے اور اس سے تفریق وجدائی کی بھی نوبت آسکتی ہے، اور ایک خاص واقعہ بھی حضور اکرم ﷺ کی ازواج کی طرف سے پیش آیا تھا تو اس کی مناسبت سے بعض خصوصی احکام وہدایات بھی بیان فرمائی جارہی ہیں۔ صحیحین و دیگر کتب حدیث میں اس سورت کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے، حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں آنحضرت ﷺ کچھ دیر حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹھیر جایا کرتے تھے (جبکہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد تمام ازواج کے حجروں میں تشریف لے جاتے تاکہ ان کے احوال کا علم ہو، اور ازواج مطہرات کے لیے آپ ﷺ کی زیارت وتشریف آوری موجب برکت و راحت ہو) اس وقت حضرت زینب ؓ کے پاس شہد آیا ہوا تھا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کو پلایا تو دو چار روز اس کے نوش فرمانے میں دیر لگی اور حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ نے باہمی مشورہ سے یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کسی کے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں تو ہم یہ کہیں کہ یا رسول اللہ آپ ﷺ کے منہ سے تو مغافیر (ایک قسم کے گوند کو کہا جاتا ہے) کی بدبو آرہی ہے تاکہ آپ ﷺ اس چیز کو ترک کردیں، چناچہ ایسا ہی کیا گیا بیان کرتی ہیں جب آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا میں تو آپ ﷺ کے منہ سے مغافیر کی بدبو محسوس کررہی ہوں آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے، اس کے بعد آپ ﷺ حفصہ ؓ کے یہاں گئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں میں نے تو شہد پیا ہے، اس پر آپ ﷺ نے طبعی ناگواری کے ساتھ فرمایا خدا کی قسم میں اب شہد نہیں پیوں گا تو اس طرح آپ ﷺ نے اپنی قسم کے ذریعے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیا، اس کے متعلق یہ سورت نازل ہوئی اور اس سلسلہ میں جو بعض باتیں پیش آئیں ان کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا یہی شان نزول صحیح ہے اگرچہ مفسرین نے ایک دوسرا واقعہ بھی ذکر کیا ہے، ارشاد فرمایا۔ اے ہمارے پیغمبر کیوں حرام کرتے ہو وہ چیز جو اللہ نے آپ کے واسطے حلال کی ہے اگرچہ مصلحتا کسی حلال چیز سے عملا پرہیز کرنا کوئی ممنوع فعل نہیں جب کہ عقیدۃ انسان حلال چیز کو حلال ہی سمجھتا رہے مگر پھر بھی وہ آنحضرت ﷺ کی شان رفیع کے مناسب نہ تھی تو فرمایا چاہتے ہیں آپ اپنی بعض ازواج کی خوشنودی، خوش خلقی اور ازواج کی خوشنودی بےاچھی چیز ہے، لیکن جس حد تک اس کی ضرورت نہ ہو یا کسی کی خوشنودی دوسری کے لیے دل شکنی اور رنج کا ذریعہ بنے یہ آپ کے مقام عالی کے مناسب نہیں تو اس پر درگزر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے وہ اس قسم کی غیر مناسب یا خلاف اولی باتوں کو درگزر فرماتا ہے اور اپنی رحمت ومہربانی سے نوازتا ہے بیشک اللہ نے مقرر کردیا ہے تمہارے واسطے تمہاری قسموں کا حلال کرنا کہ کسی حلال چیز سے رکے رہنے کے بجائے قسم کا کفارہ دے کر اس حلال کو اختیار کرو نہ یہ کہ عملا اس سے اس طرح پرہیز کرتے ہو، جیسا کہ حرام چیز سے پرہیز کیا جاتا ہے اور اللہ ہی تمہارا مولی ہے وہی سب کچھ جاننے والا صاحب حکمت ہے چناچہ ایسا ہی مقدر ہوا اور نبی کریم ﷺ نے محض اس وجہ سے دیگر ازواج کے لیے کسی قسم کی رنجیدگی کا باعث نہ ہو قسم کھالی کہ میں اب آئندہ شہد نہ پیوں گا اور جب چھپا کر کہی پیغمبر نے ایک بات اپنی ازواج میں سے کسی ایک کو اور ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ کسی اور سے مت بتانا تاکہ کسی کو رنج نہ پہنچے لیکن پھر جب اس نے خبر کردی اس بات کی ازواج میں کسی اور کو بھی چناچہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات حفصہ ؓ کو بتا دی کہ دیکھو حضور ﷺ نے شہد اپنے اوپر حرام کرلیا ہے اور اب آپ ﷺ زینب ؓ کے ہاں زیادہ دیر نہ رک سکیں گے اور اللہ نے اس پر اپنے پیغمبر کو مطلع کردیا تو اللہ کے پیغمبر نے کچھ بات بتلا دی اور کچھ سے اعراض کیا اس مصلحت سے کہ اس بیوی کو کسی قسم کا رنج یا بدگمانی نہ ہو تو جب پیغمبر نے یہ بات ظاہر کی اس بیوی سے تو اس نے پوچھا کس نے خبر دی ہے آپ کو اس بات کی کہ میں نے یہ راز کسی کو بتایا ہے، جواب دیا، بتا دیا مجھ کو اس بڑے علم رکھنے والے خبردار نے کہ جس پروردگار کے علم میں ہر چھوٹی بڑی چیز ہے، اللہ رب العزت جب کسی بات کو ظاہر کرنا چاہے تو اسے کوئی نہیں چھپا سکتا تو آنحضرت ﷺ نے حسن معاشرت اور وسعت اخلاق کے بارے میں چاہا کہ یہ شہید پینے کے معاملہ کو بھی ترک کردوں تاکہ وہ ازواج جو حضور ﷺ کے غایت تعلق کی وجہ سے آپ ﷺ کی تشریف آوری اور زیارت کے لیے بےچین رہتیں اور اگر ذرا چند لمحوں کی بھی ہوئی تو وہ دیر انکو دو بھر گذری ادھر یہ بھی چاہا کہ جو بیوی اس تعلق اور جذبہ سے آپ ﷺ کی ایک مرغوب چیز (شہد) سے تواضع کرتی تھیں ان کو اس کا علم نہ ہو کیونکہ ان کو معلوم ہونے سے یقیناً رنج پہنچے گا اس وجہ سے یہ صورت کی کہ شہد حرام کرلیا اور اس کی قسم کھانے کے بارے میں یہ بھی تاکید کردی کہ کسی کی خبر نہ کی جائے لیکن عائشہ ؓ بہرکیف عورت تھیں اور عورت کے مزاج میں ضعف ہوتا ہے تو اس کو چھپا نہ سکیں اور حفصہ ؓ کو خبر کردی ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے پیش آنے پر ان دونوں کا قصور ظاہر ہوا تو حق تعالیٰ نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم دونوں اللہ کی طرف تائب ہوجاؤ تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل جھک پڑے تھے ان میں میلان اور ٹیڑھا پن آگیا تھا اور جادۂ اعتدال سے جھک کر ایک طرف مائل ہوچکے تھے اور اے عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ اگر تم دونوں پیغمبر خدا پر کوئی غلبہ حاصل کرنے کا ارادہ کروگی تو پھر سمجھ لو کہ اللہ بھی ان کا مولی ہوگا اور جبریل بھی اور صالحین مومنین بھی یہ سب خدا کے پیغمبر کی مدد کے لیے ہوں گے اور یہ ہی نہیں بلکہ فرشتے بھی اس کے بعد مددگار ہوں گے، تو خدا اس طرح اپنے پیغمبر کو بےیار ومدد گار نہیں چھوڑے گا۔ اور ایسی صورت میں کہ خدا اس کے فرشتے جبریل امین (علیہ السلام) اور صالحین۔ حاشیہ (بعض مفسرین نے صالح ال مومنین کی تفسیر میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ کا نام بیان کیا ہے اور ان ناموں کا ذکر کرنا حضرت عائشہ وحضرت حفصہ ؓ کے پیش نظر نہایت ہی لطیف اور مناسب ہے، 12) مومنین مددگار ہوں تو کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوسکتا پیغمبر خدا ﷺ کی ازواج کو پیغمبر کی تکلیف اور رنج سے ڈرنا چاہئے خدا اپنے پیغمبر کو ہر قسم کی ذہنی الجھن سے پاک اور محفوظ فرمانے پر بڑا ہی قادر ہے اس وجہ سے اے ازواج رسول اللہ ﷺ سن لو بہت قریب ہے یہ بات کہ اگر یہ نبی تم کو طلاق دے دیں تو پھر ان کا رب ان کو دوسری بیویاں دے دے تمہارے بجائے جو تم سے بہتر ہوں فرمانبردار ہوں ایمان ویقین رکھنے والیاں خدا کی مطیع توبہ کرنے والی عبادت گزار روزہ دار ہوں، بیوہ ہوں اور دو شیزہ لہذا کسی کو یہ دھوکہ نہ لگے اور نہ ہی یہ تصور پیدا ہو کہ ہم سے بہتر پیغمبر کو اور کوئی نہیں مل سکتا، پیغمبر کے لیے اللہ جب کی بھی زوجیت مقرر فرمادے گا وہ اعلی سے اعلیٰ ہوگی اور اس میں ایمان ویقین اور باطنی کمالات وخوبیوں کے ساتھ جسمانی محاسن بھی پیغمبر کا رب ان میں جمع کردیگا۔ انسان کی زندگی میں ایسے گھریلو واقعات اور ناگوار خاطر امور پیش آہی جایا کرتے ہیں اس وجہ سے اے ایمان والوں تمہیں خاص تاکید کے ساتھ یہ ہدایت ہے کہ بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی ایسی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس کے عذاب اور گرفت سے نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ نکل سکتا ہے، جس پر فرشتے سخت مزاج نہایت مضبوط نگران ہیں جو نافرمانی نہیں کرتے اللہ کے حکم کی جو بھی اللہ ان کو حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم ہوتا ہے تو جس جہنم پر ایسے فرشتے نگران ہوں گے کہ ان کو مجرموں پر نہ ترس آئے گا اور نہ وہ نرم دل ہوں گے یقیناً اس کے عذاب سے کوئی مجرم نہیں بچ سکتا اور انسان کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ افراد خانہ اور اہل و عیال کی بھی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور یہ سب کام انسان دنیا کی زندگی ہی میں کرسکتا ہے یہ زندگی دارالعمل ہے اور روز آخرت دارالعمل نہیں رہے گا بلکہ وہ روز جزاء ہوگا جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے، یایھا الناس انکم الیوم فی دار العمل ولا حساب وانتم غدا فی دار اجزاء والا عمل “ کہ اے لوگو ! تم آج دار العمل میں ہو جہاں حساب و کتاب نہیں مگر کل آنے والے دن اس جگہ ہوگے، جہاں حساب ہی حساب ہوگا نہ کہ عمل تو ایسے ہیبت ناک دن اعلان ہوگا اے کافروں ! مت عذر پیش کرو آج کے دن اب تو بس تمہیں بدلہ دیا جائے گا ان اعمال کا جو تم کرتے تھے تو جب روز قیامت جہنم سامنے ہوگی اور اس کا دہکتا ہوا عذاب نظر آرہا ہوگا اور مجرموں پر یہ تنبیہ ہوگی کہ اب عذر اور بہانوں کی گنجائش نہیں تو بلاشبہ ایسے دن سے پہلے انسان اپنی اور اپنے گھروں کی اصلاح کرلے تو بہتر ہے اور بعض دفعہ معمولی جھگڑے بھی بڑی مصیبت کا سبب بن جاتے ہیں تو اس وجہ سے گھریلومنازعات اور باہمی رنجش کی باتوں سے بڑا ہی محتاط رہنا چاہئے اور ان سب باتوں کے لیے بنیادی چیز اپنے طبعی جذبات کو قابو میں رکھنا ہے ساتھ حلم اور درگزر بھی چاہئے جیسا کہ بیان کردہ واقعہ میں پیغمبر خدا ﷺ کے اسوۂ مبارکہ سے معلوم ہوا۔
Top