Tafseer-e-Majidi - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
(وہ) مالک روز جزا کا14
14، ملک۔ حاکم یا قاضی خواہ کیسے ہی واسیع اختیارات رکھتا ہو، بہرحال اس کے اختیارات محدود ہی ہوتے ہیں، اور وہ مجرم کو حسب ضابطہ سزا دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ گویا خود حاکم پر حکومت ضابطہ یا قانون کی ہوتی ہے۔ بہ خلاف اس کے مالک وہ ہوتا ہے جسے پورے اختیارات حاصل ہوں۔ مجرم کو چاہے وہ بخش دے، چاہے سزادے۔ کوئی اس سے باز پرس کرنے والا اور کوئی اس پر حاکم نہیں۔ حدیث مسلم میں آچکا ہے کہ لامالک الا اللہ عزوجل (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مالک نہیں) اور محققین کا قول بھی ایسا ہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کسی کو مالک کہنا یا پکارنا جائز نہیں لا یجوزان یسمی احدبھذا الاسم ولا یدعی بہ الا اللہ تعالیٰ (قرطبی) لفظ کا فارسی ترجمہ بھی اسی لیے سفیان تابعی (رح) سے ” شہنشاہ “ مروی ہے قال سفیان مثل شاھان شاہ (قرطبی) اور مفسرین نے بھی معنی مطلق الاختیار کے لیے ہیں۔ المالک ھو المتصرف فی الاعیان المملوکۃ کیف یشآء من الملک (بیضاوی) ہندوستان کی بعض مشہور مشرک قوموں کا عقیدہ ہے کہ قانون مکافات عمل (ہندی اصطلاح میں ” کرم “ ) کے خلاف خدا بھی نہیں جاسکتا۔ اور کسی خطا وار کو معاف نہیں کرسکتا مسیحیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ خدا انصاف کرنے پر مجبور ہے۔ اور اسی لیے صفت عفو ورحم کے اظہار کے لیے اسے اپنے اکلوتے ” بیٹے “ کو بطور کفارہ کے سب گنہگار مخلوق کی طرف سے پیش کرنا پڑا۔ قرآن مجید کے ایک لفظ مالک میں ان سب باطل عقائد کی تردید آگئی۔ یوم الدین۔ دین کے لفظی معنی جزا یا بدلہ کے ہیں۔ الدین الجزآء۔ اور قیامت کو بھی روز جزا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پورے حساب اور ہر عمل کے بدلہ کا دن ہوگا۔ یہاں بھی یوم الدین سے مراد روزحشر ہے۔ اے یوم حساب الخلائق وھو یوم القیمۃ یدینھم باعمالھم (ابن جریر۔ عن ابن عباس) اے یوم البعث والجزاء (کبیر) اللہ تعالیٰ مالک تو آج بھی ہے۔ روز جزا کے ساتھ تخصیص کا مطلب یہ ہے کہ اس روز اس کی صفت مالکیت کا مشاہدہ وتحقیق بڑے سے بڑے منکر کو بھی ہو کر رہے گا
Top