بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Majidi - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے اسے آپ کیوں حرام کررہے، اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے لئے،1۔ اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے بڑا رحیم ہے،2۔
1۔ شان نزول کی دو مختلف روایتیں ہیں، دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی بیوی صاحبہ کی دلجوئی کے لیے عہد کرلیا تھا کہ فلاں نعمت سے آئندہ تمتع نہ کریں گے۔ یہ عمل اگرچہ بجائے خود بالکل جائز تھا۔ ہر مسلمان کو اختیار ہے کہ جس حلال چیز سے چاہے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجائے اور دستبرداری کا اعلان بھی کردے۔ لیکن یہ پیغمبر کی شایان شان نہ تھا، اور وہ بھی ایک داعی ضعیف کی بناء پر۔ اسی لیے آپ ﷺ سے خطاب ہمرنگ عتاب ہوا۔ آپ ﷺ ظاہر ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام نہیں فرما رہے تھے۔ بلکہ آپ ﷺ کے عہد کے بعد صرف وجوب امتناع میں وہ چیز مثل حرام کے ٹھہر رہی تھی، اس لیے تنبیہا اسے تحریم سے تعبیر کیا گیا۔ 2۔ (جو معصیت تک کو معاف کردیتا ہے اور پھر یہ عمل تو معصیت کے درجہ کا ہے بھی نہیں، صرف خلاف عزیمت اور خلاف شان پیغمبری ہے)
Top