Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
لِمَ تُحَرِّمُ
: کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں
مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ
: جو حلال کیا اللہ نے
لَكَ
: آپ کے لیے
تَبْتَغِيْ
: آپ چاہتے ہیں
مَرْضَاتَ
: رضامندی
اَزْوَاجِكَ
: اپنی بیویوں کی
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک . ” اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اس کو آپ حرام کیوں کرتے ہیں۔ “ مَآ اَحَلَّ اللہ : سے مراد شہد ہے اور استفہام انکاری سے یعنی حلال کو حرام بنا دینا آپ کے لیے جائز نہیں۔ بخاری نے ان الفاظ کے ساتھ حدیث مذکور نقل کی ہے (کہ حضور ﷺ نے فرمایا :) میں زینب بنت جحش کے پاس شہد کا شربت پیتا ہوں لیکن (اب) عہد کرتا ہوں (کہ آئندہ نہیں پیوں گا) تم کسی سے (یہ بات) کہنا مت (خبر دینے کی ممانعت سے) آپ کا مقصد تھا امہات المؤمنین میں ناراضگی پیدا نہ ہونا (یعنی بیبیوں کی دلجوئی کی خواہش) ۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن ابی ملیکہ کی اسناد سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓ کے پاس شہد (کا شربت) پیا کرتے تھے (ایک بار جو آپ شہد پی کر) حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا : مجھے آپ ﷺ کے پاس سے کچھ مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے بعد جب آپ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی بات کہی۔ حضور ؓ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ سودہ ؓ کے پاس جو میں نے شربت پیا یہ بو اسی کی ہے۔ خدا کی قسم آئندہ میں وہ شربت نہیں پیوں گا۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ قابل ترجیح روایت یہی ہے کہ شربت پینے کا واقعہ حضرت زینب ؓ کے گھر کا ہے۔ حضرت سودہ کے گھر کا نہیں ہے کیونکہ جو روایت بطریق عبید بن عمیر آئی ہے وہ اس روایت سے بہت زیادہ قوی ہے جو ابن ابی ملیکہ کے طریق سے آئی ہے یہ ترجیح اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے بیان کی ہے کہ امہات المؤمنین کی دو پارٹیاں تھیں ‘ ایک پارٹی حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ اور سودہ ؓ کی تھی اور دوسری پارٹی حضرت امّ سلمہ اور باقی امہات المؤمنین کی۔ حضرت سودہ ؓ جب حضرت عائشہ ؓ کی پارٹی میں داخل تھیں تو ان سے حضرت عائشہ کو رشک نہیں ہوسکتا۔ حضرت زینب ؓ حضرت امّ سلمہ ؓ کی پارٹی کی رکن تھیں۔ اس لیے حضرت زینب ؓ سے رشک ہونا قرین عقل اور قابل ترجیح ہے۔ فائدہ صحیح بخاری میں عروہ کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ شہید والی بی بی حضرت حفصہ تھیں۔ تفصیل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ شیرینی اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ عصر کی نماز کے بعد بیبیوں کے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک روز (عصر کے بعد) حضرت حفصہ ؓ کے پاس گئے تو وہاں ہر روز کے معمول کے خلاف زیادہ دیر توقف کیا۔ میں نے جب پوچھ پا چھ کی تو معلوم ہوا کہ حفصہ ؓ کے خاندان کی کسی عورت نے حفصہ کو بطور ہدیہ شہد کی ایک کپی بھیجی تھی۔ انہوں نے اس شہد کا شربت بنا کر رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : میں نے یہ بات سن کر کہا : خدا کی قسم ! ہم کوئی تدبیر کریں گے (کہ رسول اللہ ﷺ وہاں شربت نہ پئیں) چناچہ میں نے سودہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس آئیں تو تم کہنا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ﷺ جواب دیں گے : نہیں (میں نے مغافیر نہیں کھایا) اس پر تم کہنا پھر یہ بو کیسی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار تھا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کسی کو یہ بو محسوس ہو۔ حضرت رسول اللہ ﷺ ضرور فرمائیں گے کہ حفصہ ؓ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس کے جواب میں تم یہ کہنا کہ اس شہد کی مکھیوں نے عرفظ کا عرق چوسا ہوگا۔ میرے پاس جب حضور ﷺ تشریف لائیں گے تو میں بھی یہی ک ہونگی اور صفیہ ؓ جب تمہارے پاس تشریف لے آئیں تو تم بھی یہی کہنا۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور قریب آئے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ؓ نے فرمایا : نہیں۔ حضرت سودہ ؓ نے کہا : پھر یہ بو کیسی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ حضرت سودہ نے کہا : تو اس کی مکھیوں نے عرفظ کا عرق چوسا ہوگا۔ حضرت سودہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا : رسول اللہ ﷺ دروازے میں ہی تھے کہ خدا کی قسم میں نے تمہارے خوف سے پکار کر وہ بات اسی وقت کہنا چاہی تھی (لیکن توقف کیا اور جب حضور ﷺ میرے پاس پہنچ گئے تو میں نے وہ بات کہی) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے وہی (طے شدہ) بات عرض کی۔ پھر صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی وہی بات عرض کی ‘ بالآخر جب آپ ﷺ حفصہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا میں اسی شہد کا شربت پلاؤں ‘ فرمایا : مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد سودہ ؓ نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شربت سے محروم کردیا ‘ میں نے کہا : خاموش رہو۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کا شربت حضرت حفصہ ؓ نے پلایا تھا اور سابق حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت زینب کا ہے۔ دونوں حدیثوں میں موافقت پیدا کرنے کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ واقعات دو ہوئے تھے ایک امر کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں ‘ اگر دونوں کو صحیح مان لیا جائے ‘ اگر ایک کو دوسری پر ترجیح دینی ہے تو میرے نزدیک عبید بن عمیر کی روایت زیادہ مستحکم اور قوی ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کا قول اس کے موافق ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اس قول کی مؤید ہے کہ حضرت حفصہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ایک گروپ میں تھیں ‘ اگر اس کو حفصہ کا واقعہ قرار دیا جائے گا تو حفصہ کو عائشہ ؓ کے گروپ میں شامل نہیں مانا جائے گا ‘ ممکن ہے کہ شربت عسل پینے کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ہو ایک بار حضرت زینب ؓ کے پاس اور دوسری بار حضرت حفصہ ؓ کے پاس۔ پہلے حضرت حفصہ نے حضور ﷺ کو شربت پلایا ہو ‘ یہ اس وقت ہوا جب حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ ایک گروپ میں تھیں ‘ اس وقت حضرت عائشہ ؓ نے حضرت سودہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ سے مل کر حضرت حفصہ ؓ کے گھر حضور ﷺ کی شربت نوشی کو بند کرنے کی کوئی کوشش کی ‘ اس کے بعد جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے پاس شربت پیا تو حضرت عائشہ ؓ نے حضرت حفصہ کو ملا کر ایسی کوشش کی۔ حضور ﷺ نے آئندہ حضرت زینب ؓ کے پاس شربت نہ پینے کا وعدہ کرلیا۔ اس حالت میں آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ہشام بن عروہ کی روایت جس سند سے بیان کی گئی ہے اور جس میں حضرت حفصہ ؓ کے پاس شربت شہد پینے کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ آیت کا ذکر کیا گیا ہے نہ سبب نزول کا۔ قرطبی نے لکھا ہے وہ روایت صحیح نہیں ہے جس میں حضرت عائشہ ‘ حضرت صفیہ اور حضرت سودہ کی باہمی مشاورت اور اتفاق کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آیت میں تثنیہ کا صیغہ ہے ‘ جمع مؤنث کا صیغہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متفق الرائے ہونے والی صرف دو عورتیں تھیں ‘ تین نہیں تھیں۔ اس صورت میں دونوں روایتوں میں توافق اس طرح ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت حفصہ ؓ کے پاس شربت پیا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق (مغافیر کی بدبو کا) ؟ ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے حفصہ ؓ کے گھر شربت پینا چھوڑ دیا لیکن اپنے لیے اس کو حرام نہیں قرار دیا اور اس کے بارے میں کسی آیت کا نزول بھی نہیں ہوا پھر جب آپ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پیا اور حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے متفق الرائے ہو کر حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پینے سے حضور ﷺ کو اپنی تدبیر سے روک دیا اور آپ ﷺ نے اپنے لیے اس کو حرام کرلیا تو اسی پر آیت کا نزول ہوا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن رافع نے فرمایا : میں نے امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا ‘ امّ المؤمنین نے فرمایا : میرے پاس سفید شہد کی ایک کپی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس شہد کو پسند فرماتے تھے اور اس میں سے کچھ نوش فرمایا کرتے تھے۔ عائشہ ؓ نے کہا : اس شہید کی مکھیاں تو عرفظ کو چوستی ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ والا نے اس شہد کو اپنے لیے حرام قرار دے لیا۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ (کذا اخرج الطبرانی) سدی کی تفسیر میں اس روایت کر مرفوع کہا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا : یہ حدیث مرسل اور شاذ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ آیت مذکورہ کا نزول حضرت ماریہ ؓ کے سلسلے میں ہوا تھا جس کی تفصیل میں بغوی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیبیوں کی باریاں بانٹ دیا کرتے (ایک بار) جب حضرت حفصہ ؓ کی باری تھی تو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے میکے جانے اور اپنے والد کو دیکھنے کی اجازت کی درخواست کی۔ حضور ﷺ نے اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ ؓ جب چلی گئیں تو حضور ﷺ نے اپنی باندی حضرت ماریہ قبطیہ کو حضرت حفصہ ﷺ کے گھر میں ہی طلب فرمایا۔ ماریہ آگئیں۔ حضور ﷺ نے ان سے قربت کی۔ حضرت حفصہ لوٹ کر آئیں تو دروازہ کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے تو اس وقت آپ ﷺ کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ حضرت حفصہ بیٹھی رو رہی تھیں ‘ فرمایا : کیوں رو رہی ہو ؟ حضرت حفصہ نے جواب دیا : آپ ﷺ نے اسی غرض سے مجھے اجازت دی تھی ‘ آپ ﷺ نے میرے گھر میں اپنی باندی کو بلایا اور میری باری کے دن میرے بستر پر اس سے قربت کی۔ آپ ﷺ نے میرا اتنا پاس لحاظ بھی نہیں کیا جتنا دوسری کسی بی بی کا کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا وہ میری باندی نہیں ہے جو اللہ نے میرے لیے حلال کردی ہے (خیر) اب تم خاموش ہوجاؤ تمہاری خوشنودی کی خاطر میں نے اس کو اپنے اوپر حرام کرلیا۔ کسی بی بی کو اس کی اطلاع نہ دینا اس کے بعد آپ ﷺ تشریف لے آئے ‘ جونہی حضور ﷺ واپس ہوگئے۔ حضرت حفصہ ؓ نے وہ دیوار کھٹ کھٹائی جو ان کے اور حضرت عائشہ ؓ کے مکان کے درمیان تھی اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا : میں تم کو ایک خوشخبری سناتی ہوں ‘ رسول اللہ ﷺ نے اپنی باندی ماریہ کو اپنے لیے حرام کرلیا ‘ اب ہم کو اللہ نے اس کی طرف سے سکھ دے دیا۔ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ باہم گہری دوست تھیں اور دوسری بیبیوں کے مقابلہ میں آپس میں ایک دوسری کی مددگار۔ اسی لیے حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے ساری سرگزشت بیان کردی۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ کو غصہ آیا اور رسول اللہ ﷺ اپنے عہد پر اس وقت تک قائم رہے جب تک یہ آیت نازل ہوئی۔ بزار نے صحیح سند سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ آیت : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیِّ لِمَ تُحَرِّم ..... ایک باندی کے متعلق نازل ہوئی۔ ابن جوزی نے تحقیق میں اپنی سند سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حفصہ ؓ اور عائشہ ؓ باہم دوست تھیں۔ حفصہ ؓ اپنے باپ کے پاس کچھ باتیں کرنے کے لیے گئیں ‘ ان کی غیبت میں رسول اللہ ﷺ نے ایک باندی کو ان کے گھر میں بلوایا۔ باندی ان کے گھر میں ( رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) موجود ہی تھی کہ حفصہ ؓ واپس آگئیں اور باندی کو اپنے گھر میں پایا۔ باندی چلی گئی اور حفصہ گھر میں آگئیں اور کہنے لگیں : میں نے دیکھ لیا کہ آپ ﷺ کے پاس کون تھی۔ آپ نے مجھے باندی کے برابر کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب تم مجھ سے راضی ہوجاؤ۔ میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں ‘ تم اس کو ظاہر نہ کرنا۔ حفصہ ؓ نے کہا : وہ کیا بات ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری خوشنودی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ باندی میں نے اپنے لیے (آئندہ) حرام کرلی تم اس کی گواہ رہو (یعنی تمہارے سامنے میں یہ بات کہتا ہوں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ حاکم اور نسائی نے بسند صحیح حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک باندی تھی۔ جس سے آپ ﷺ مباشرت کر رہے تھے کہ حفصہ ؓ (آپڑیں اور) اس وقت تک اصرار کرتی رہیں ‘ جب تک حضور ﷺ نے (آئندہ کے لیے) اس باندی کو اپنے واسطے حرام نہ کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ المختار میں حدیث ابن عمر ؓ میں حضرت عمر کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا : کسی کو یہ اطلاع نہ دینا کہ ابراہیم کی ماں (کو میں نے اپنے اوپر حرام کرلیا اور وہ) میرے لیے حرام ہوگئی ‘ اس عہد کے بعد حضور ﷺ نے ابراہیم کی ماں سے قربت نہیں کی لیکن حفصہ ؓ نے جا کر عائشہ ؓ سے یہ بات کہہ دی۔ اس پر آیت : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ.... نازل ہوئی۔ یہ تمام احادیث ثابت کر رہی ہیں کہ آیات کا نزول حضرت ماریہ قبطیہ کے متعلق ہوا ‘ جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے حرام کرلیا تھا لیکن شروع میں جو احادیث مذکور ہیں ان سے ان آیات کا نزول شہد کا شربت پینے کے سلسلے میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے دونوں طرح کی احادیث کو موافق بنانے کیلئے کہا ‘ ہوسکتا ہے کہ آیات کے نزول کے مذکورہ دونوں واقعے سبب ہوں۔ ابن حجر کے اس قول کی تائید ی زید بن رومان کی اس روایت سے ہوتی ہے جو ابن مردویہ نے بیان کی ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کے پاس شہد کی ایک کپی بطور ہدیہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس جاتے تو وہ آپ ﷺ کو روک لیتی تھیں اور حضور ﷺ وہ شہد وہاں کھاتے یا اس کا شربت طلب فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنی ایک حبشی باندی سے جس کا نام خضراء تھا ‘ فرمایا : جا کر دیکھ کہ رسول اللہ ﷺ وہاں کیا کرتے ہیں ؟ باندی گئی اور واپس آکر اس نے شہد کا شربت پینے کی اطلاع دے دی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے ساتھ والی (یعنی اپنے گروپ کی) دوسری بیبیوں کو کہلا بھیجا کہ جب رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس تشریف لائیں تو تم سب یہی کہنا کہ ہم کو آپ ﷺ کے پاس سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے (حضرت عائشہ ؓ کے گروپ والیوں نے ایسا ہی کیا) حضور ﷺ نے فرمایا : میں نے تو شہد (کا شربت) پیا تھا۔ خدا کی قسم ! میں آئندہ اس کو نہیں کھاؤں گا (اس کے بعد) جب حضرت حفصہ ؓ کی باری کا دن تھا تو انہوں نے اپنے والد کے پاس جانے کی اجازت چاہی۔ حضور ﷺ نے اجازت دے دی ‘ وہ چلی گئیں۔ حضور ﷺ نے (حفصہ کی غیبت میں) ان کے گھر میں باندی کو طلب فرما لیا۔ اتنے میں حضرت حفصہ ؓ واپس آگئیں۔ دروازہ کو بند پایا (تو وہیں بیٹھ گئیں) کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ اندر سے برآمد ہوگئے۔ اس وقت چہرۂ مبارک سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ حضرت حفصہ ؓ رو رہی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ناراضی کا اظہار کیا۔ حضور اقدس نے فرمایا : آئندہ وہ مجھ پر حرام ہے۔ مگر یہ بات کسی عورت سے کہنا نہیں ‘ میری یہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔ یہ فرما کر حضور ﷺ چلے گئے۔ حضرت حفصہ ؓ نے دیوار کو جو ان کے اور حضرت عائشہ ؓ کے مکان کے درمیان تھی ‘ کھٹکھٹایا اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا : میں تم کو خوشخبری سناتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے باندی کو حرام کرلیا۔ میں کہتا ہوں ‘ اس حدیث میں حضرت ماریہ کے قصے کو اور حضرت حفصہ ؓ کے پاس شہد پینے کے واقعے کو ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ شاید راوی نے ایسا کیا ہو لیکن حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پینے کا کوئی ذکر اس میں نہیں کیا گیا۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ تمام اسباب نزول میں حضرت ماریہ ؓ کے قصہ کو شان نزول قرار دینا ‘ زیادہ قوی ہے کیونکہ اس میں صرف حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ سے آیت کا تعلق ثابت ہوگا۔ شہد والے واقع سے کوئی تعلق نہ ہوگا لیکن شہد پینے کے قصے کو اگر سبب نزول قرار دیا جائے گا تو اس میں حضرت سودہ اور حضرت صفیہ کا حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ متفق ہونا ضروری قرار پائے گا (حالانکہ اِنْ تَتُوْبَا اور قُلُوْبُکُمَا میں تثنیہ کی ضمیریں ہیں ‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتفاقِ رائے صرف دو عورتوں کا تھا) ۔ تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم . ” آپ چاہتے ہیں اپنی بیویوں کی خوشنودی اور اللہ بخشنے والا ‘ مہربان ہے۔ “ یہ تحریم کی تشریح ہے یا جملۂ مستانفہ ہے ‘ جس میں تحریم کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ : یعنی آپ سے یہ لغزش ہوگئی کہ اللہ نے جس چیز کو آپ کے لیے حلال بنایا تھا ‘ آپ ﷺ نے اس کو قسم کھا کر اپنے لیے حرام کرلیا۔ اللہ آپ ﷺ کی اس لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔ رَّحِیْمٌ : یعنی اللہ نے آپ ﷺ پر اپنی رحمت کو خود ساختہ تحریم سے نکلنے کا راستہ اس نے آپ ﷺ کے لیے بنا دیا اور آپ ﷺ سے مواخذہ نہیں کیا اور آپ ﷺ کو ناجائز اَمر سے بچانے کے لیے اظہار ناگواری کردیا۔
Top