بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک . ” اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اس کو آپ حرام کیوں کرتے ہیں۔ “ مَآ اَحَلَّ اللہ : سے مراد شہد ہے اور استفہام انکاری سے یعنی حلال کو حرام بنا دینا آپ کے لیے جائز نہیں۔ بخاری نے ان الفاظ کے ساتھ حدیث مذکور نقل کی ہے (کہ حضور ﷺ نے فرمایا :) میں زینب بنت جحش کے پاس شہد کا شربت پیتا ہوں لیکن (اب) عہد کرتا ہوں (کہ آئندہ نہیں پیوں گا) تم کسی سے (یہ بات) کہنا مت (خبر دینے کی ممانعت سے) آپ کا مقصد تھا امہات المؤمنین میں ناراضگی پیدا نہ ہونا (یعنی بیبیوں کی دلجوئی کی خواہش) ۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن ابی ملیکہ کی اسناد سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓ کے پاس شہد (کا شربت) پیا کرتے تھے (ایک بار جو آپ شہد پی کر) حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا : مجھے آپ ﷺ کے پاس سے کچھ مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے بعد جب آپ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی بات کہی۔ حضور ؓ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ سودہ ؓ کے پاس جو میں نے شربت پیا یہ بو اسی کی ہے۔ خدا کی قسم آئندہ میں وہ شربت نہیں پیوں گا۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ قابل ترجیح روایت یہی ہے کہ شربت پینے کا واقعہ حضرت زینب ؓ کے گھر کا ہے۔ حضرت سودہ کے گھر کا نہیں ہے کیونکہ جو روایت بطریق عبید بن عمیر آئی ہے وہ اس روایت سے بہت زیادہ قوی ہے جو ابن ابی ملیکہ کے طریق سے آئی ہے یہ ترجیح اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے بیان کی ہے کہ امہات المؤمنین کی دو پارٹیاں تھیں ‘ ایک پارٹی حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ اور سودہ ؓ کی تھی اور دوسری پارٹی حضرت امّ سلمہ اور باقی امہات المؤمنین کی۔ حضرت سودہ ؓ جب حضرت عائشہ ؓ کی پارٹی میں داخل تھیں تو ان سے حضرت عائشہ کو رشک نہیں ہوسکتا۔ حضرت زینب ؓ حضرت امّ سلمہ ؓ کی پارٹی کی رکن تھیں۔ اس لیے حضرت زینب ؓ سے رشک ہونا قرین عقل اور قابل ترجیح ہے۔ فائدہ صحیح بخاری میں عروہ کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ شہید والی بی بی حضرت حفصہ تھیں۔ تفصیل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ شیرینی اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ عصر کی نماز کے بعد بیبیوں کے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک روز (عصر کے بعد) حضرت حفصہ ؓ کے پاس گئے تو وہاں ہر روز کے معمول کے خلاف زیادہ دیر توقف کیا۔ میں نے جب پوچھ پا چھ کی تو معلوم ہوا کہ حفصہ ؓ کے خاندان کی کسی عورت نے حفصہ کو بطور ہدیہ شہد کی ایک کپی بھیجی تھی۔ انہوں نے اس شہد کا شربت بنا کر رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : میں نے یہ بات سن کر کہا : خدا کی قسم ! ہم کوئی تدبیر کریں گے (کہ رسول اللہ ﷺ وہاں شربت نہ پئیں) چناچہ میں نے سودہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس آئیں تو تم کہنا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ﷺ جواب دیں گے : نہیں (میں نے مغافیر نہیں کھایا) اس پر تم کہنا پھر یہ بو کیسی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار تھا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کسی کو یہ بو محسوس ہو۔ حضرت رسول اللہ ﷺ ضرور فرمائیں گے کہ حفصہ ؓ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس کے جواب میں تم یہ کہنا کہ اس شہد کی مکھیوں نے عرفظ کا عرق چوسا ہوگا۔ میرے پاس جب حضور ﷺ تشریف لائیں گے تو میں بھی یہی ک ہونگی اور صفیہ ؓ جب تمہارے پاس تشریف لے آئیں تو تم بھی یہی کہنا۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور قریب آئے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ؓ نے فرمایا : نہیں۔ حضرت سودہ ؓ نے کہا : پھر یہ بو کیسی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ حضرت سودہ نے کہا : تو اس کی مکھیوں نے عرفظ کا عرق چوسا ہوگا۔ حضرت سودہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا : رسول اللہ ﷺ دروازے میں ہی تھے کہ خدا کی قسم میں نے تمہارے خوف سے پکار کر وہ بات اسی وقت کہنا چاہی تھی (لیکن توقف کیا اور جب حضور ﷺ میرے پاس پہنچ گئے تو میں نے وہ بات کہی) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے وہی (طے شدہ) بات عرض کی۔ پھر صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی وہی بات عرض کی ‘ بالآخر جب آپ ﷺ حفصہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا میں اسی شہد کا شربت پلاؤں ‘ فرمایا : مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد سودہ ؓ نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شربت سے محروم کردیا ‘ میں نے کہا : خاموش رہو۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کا شربت حضرت حفصہ ؓ نے پلایا تھا اور سابق حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت زینب کا ہے۔ دونوں حدیثوں میں موافقت پیدا کرنے کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ واقعات دو ہوئے تھے ایک امر کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں ‘ اگر دونوں کو صحیح مان لیا جائے ‘ اگر ایک کو دوسری پر ترجیح دینی ہے تو میرے نزدیک عبید بن عمیر کی روایت زیادہ مستحکم اور قوی ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کا قول اس کے موافق ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اس قول کی مؤید ہے کہ حضرت حفصہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ایک گروپ میں تھیں ‘ اگر اس کو حفصہ کا واقعہ قرار دیا جائے گا تو حفصہ کو عائشہ ؓ کے گروپ میں شامل نہیں مانا جائے گا ‘ ممکن ہے کہ شربت عسل پینے کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ہو ایک بار حضرت زینب ؓ کے پاس اور دوسری بار حضرت حفصہ ؓ کے پاس۔ پہلے حضرت حفصہ نے حضور ﷺ کو شربت پلایا ہو ‘ یہ اس وقت ہوا جب حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ ایک گروپ میں تھیں ‘ اس وقت حضرت عائشہ ؓ نے حضرت سودہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ سے مل کر حضرت حفصہ ؓ کے گھر حضور ﷺ کی شربت نوشی کو بند کرنے کی کوئی کوشش کی ‘ اس کے بعد جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے پاس شربت پیا تو حضرت عائشہ ؓ نے حضرت حفصہ کو ملا کر ایسی کوشش کی۔ حضور ﷺ نے آئندہ حضرت زینب ؓ کے پاس شربت نہ پینے کا وعدہ کرلیا۔ اس حالت میں آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ہشام بن عروہ کی روایت جس سند سے بیان کی گئی ہے اور جس میں حضرت حفصہ ؓ کے پاس شربت شہد پینے کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ آیت کا ذکر کیا گیا ہے نہ سبب نزول کا۔ قرطبی نے لکھا ہے وہ روایت صحیح نہیں ہے جس میں حضرت عائشہ ‘ حضرت صفیہ اور حضرت سودہ کی باہمی مشاورت اور اتفاق کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آیت میں تثنیہ کا صیغہ ہے ‘ جمع مؤنث کا صیغہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متفق الرائے ہونے والی صرف دو عورتیں تھیں ‘ تین نہیں تھیں۔ اس صورت میں دونوں روایتوں میں توافق اس طرح ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت حفصہ ؓ کے پاس شربت پیا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق (مغافیر کی بدبو کا) ؟ ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے حفصہ ؓ کے گھر شربت پینا چھوڑ دیا لیکن اپنے لیے اس کو حرام نہیں قرار دیا اور اس کے بارے میں کسی آیت کا نزول بھی نہیں ہوا پھر جب آپ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پیا اور حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے متفق الرائے ہو کر حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پینے سے حضور ﷺ کو اپنی تدبیر سے روک دیا اور آپ ﷺ نے اپنے لیے اس کو حرام کرلیا تو اسی پر آیت کا نزول ہوا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن رافع نے فرمایا : میں نے امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا ‘ امّ المؤمنین نے فرمایا : میرے پاس سفید شہد کی ایک کپی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس شہد کو پسند فرماتے تھے اور اس میں سے کچھ نوش فرمایا کرتے تھے۔ عائشہ ؓ نے کہا : اس شہید کی مکھیاں تو عرفظ کو چوستی ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ والا نے اس شہد کو اپنے لیے حرام قرار دے لیا۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ (کذا اخرج الطبرانی) سدی کی تفسیر میں اس روایت کر مرفوع کہا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا : یہ حدیث مرسل اور شاذ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ آیت مذکورہ کا نزول حضرت ماریہ ؓ کے سلسلے میں ہوا تھا جس کی تفصیل میں بغوی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیبیوں کی باریاں بانٹ دیا کرتے (ایک بار) جب حضرت حفصہ ؓ کی باری تھی تو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے میکے جانے اور اپنے والد کو دیکھنے کی اجازت کی درخواست کی۔ حضور ﷺ نے اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ ؓ جب چلی گئیں تو حضور ﷺ نے اپنی باندی حضرت ماریہ قبطیہ کو حضرت حفصہ ﷺ کے گھر میں ہی طلب فرمایا۔ ماریہ آگئیں۔ حضور ﷺ نے ان سے قربت کی۔ حضرت حفصہ لوٹ کر آئیں تو دروازہ کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے تو اس وقت آپ ﷺ کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ حضرت حفصہ بیٹھی رو رہی تھیں ‘ فرمایا : کیوں رو رہی ہو ؟ حضرت حفصہ نے جواب دیا : آپ ﷺ نے اسی غرض سے مجھے اجازت دی تھی ‘ آپ ﷺ نے میرے گھر میں اپنی باندی کو بلایا اور میری باری کے دن میرے بستر پر اس سے قربت کی۔ آپ ﷺ نے میرا اتنا پاس لحاظ بھی نہیں کیا جتنا دوسری کسی بی بی کا کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا وہ میری باندی نہیں ہے جو اللہ نے میرے لیے حلال کردی ہے (خیر) اب تم خاموش ہوجاؤ تمہاری خوشنودی کی خاطر میں نے اس کو اپنے اوپر حرام کرلیا۔ کسی بی بی کو اس کی اطلاع نہ دینا اس کے بعد آپ ﷺ تشریف لے آئے ‘ جونہی حضور ﷺ واپس ہوگئے۔ حضرت حفصہ ؓ نے وہ دیوار کھٹ کھٹائی جو ان کے اور حضرت عائشہ ؓ کے مکان کے درمیان تھی اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا : میں تم کو ایک خوشخبری سناتی ہوں ‘ رسول اللہ ﷺ نے اپنی باندی ماریہ کو اپنے لیے حرام کرلیا ‘ اب ہم کو اللہ نے اس کی طرف سے سکھ دے دیا۔ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ باہم گہری دوست تھیں اور دوسری بیبیوں کے مقابلہ میں آپس میں ایک دوسری کی مددگار۔ اسی لیے حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے ساری سرگزشت بیان کردی۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ کو غصہ آیا اور رسول اللہ ﷺ اپنے عہد پر اس وقت تک قائم رہے جب تک یہ آیت نازل ہوئی۔ بزار نے صحیح سند سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ آیت : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیِّ لِمَ تُحَرِّم ..... ایک باندی کے متعلق نازل ہوئی۔ ابن جوزی نے تحقیق میں اپنی سند سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حفصہ ؓ اور عائشہ ؓ باہم دوست تھیں۔ حفصہ ؓ اپنے باپ کے پاس کچھ باتیں کرنے کے لیے گئیں ‘ ان کی غیبت میں رسول اللہ ﷺ نے ایک باندی کو ان کے گھر میں بلوایا۔ باندی ان کے گھر میں ( رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) موجود ہی تھی کہ حفصہ ؓ واپس آگئیں اور باندی کو اپنے گھر میں پایا۔ باندی چلی گئی اور حفصہ گھر میں آگئیں اور کہنے لگیں : میں نے دیکھ لیا کہ آپ ﷺ کے پاس کون تھی۔ آپ نے مجھے باندی کے برابر کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب تم مجھ سے راضی ہوجاؤ۔ میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں ‘ تم اس کو ظاہر نہ کرنا۔ حفصہ ؓ نے کہا : وہ کیا بات ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری خوشنودی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ باندی میں نے اپنے لیے (آئندہ) حرام کرلی تم اس کی گواہ رہو (یعنی تمہارے سامنے میں یہ بات کہتا ہوں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ حاکم اور نسائی نے بسند صحیح حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک باندی تھی۔ جس سے آپ ﷺ مباشرت کر رہے تھے کہ حفصہ ؓ (آپڑیں اور) اس وقت تک اصرار کرتی رہیں ‘ جب تک حضور ﷺ نے (آئندہ کے لیے) اس باندی کو اپنے واسطے حرام نہ کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ المختار میں حدیث ابن عمر ؓ میں حضرت عمر کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا : کسی کو یہ اطلاع نہ دینا کہ ابراہیم کی ماں (کو میں نے اپنے اوپر حرام کرلیا اور وہ) میرے لیے حرام ہوگئی ‘ اس عہد کے بعد حضور ﷺ نے ابراہیم کی ماں سے قربت نہیں کی لیکن حفصہ ؓ نے جا کر عائشہ ؓ سے یہ بات کہہ دی۔ اس پر آیت : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ.... نازل ہوئی۔ یہ تمام احادیث ثابت کر رہی ہیں کہ آیات کا نزول حضرت ماریہ قبطیہ کے متعلق ہوا ‘ جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے حرام کرلیا تھا لیکن شروع میں جو احادیث مذکور ہیں ان سے ان آیات کا نزول شہد کا شربت پینے کے سلسلے میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے دونوں طرح کی احادیث کو موافق بنانے کیلئے کہا ‘ ہوسکتا ہے کہ آیات کے نزول کے مذکورہ دونوں واقعے سبب ہوں۔ ابن حجر کے اس قول کی تائید ی زید بن رومان کی اس روایت سے ہوتی ہے جو ابن مردویہ نے بیان کی ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کے پاس شہد کی ایک کپی بطور ہدیہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس جاتے تو وہ آپ ﷺ کو روک لیتی تھیں اور حضور ﷺ وہ شہد وہاں کھاتے یا اس کا شربت طلب فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنی ایک حبشی باندی سے جس کا نام خضراء تھا ‘ فرمایا : جا کر دیکھ کہ رسول اللہ ﷺ وہاں کیا کرتے ہیں ؟ باندی گئی اور واپس آکر اس نے شہد کا شربت پینے کی اطلاع دے دی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے ساتھ والی (یعنی اپنے گروپ کی) دوسری بیبیوں کو کہلا بھیجا کہ جب رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس تشریف لائیں تو تم سب یہی کہنا کہ ہم کو آپ ﷺ کے پاس سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے (حضرت عائشہ ؓ کے گروپ والیوں نے ایسا ہی کیا) حضور ﷺ نے فرمایا : میں نے تو شہد (کا شربت) پیا تھا۔ خدا کی قسم ! میں آئندہ اس کو نہیں کھاؤں گا (اس کے بعد) جب حضرت حفصہ ؓ کی باری کا دن تھا تو انہوں نے اپنے والد کے پاس جانے کی اجازت چاہی۔ حضور ﷺ نے اجازت دے دی ‘ وہ چلی گئیں۔ حضور ﷺ نے (حفصہ کی غیبت میں) ان کے گھر میں باندی کو طلب فرما لیا۔ اتنے میں حضرت حفصہ ؓ واپس آگئیں۔ دروازہ کو بند پایا (تو وہیں بیٹھ گئیں) کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ اندر سے برآمد ہوگئے۔ اس وقت چہرۂ مبارک سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ حضرت حفصہ ؓ رو رہی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ناراضی کا اظہار کیا۔ حضور اقدس نے فرمایا : آئندہ وہ مجھ پر حرام ہے۔ مگر یہ بات کسی عورت سے کہنا نہیں ‘ میری یہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔ یہ فرما کر حضور ﷺ چلے گئے۔ حضرت حفصہ ؓ نے دیوار کو جو ان کے اور حضرت عائشہ ؓ کے مکان کے درمیان تھی ‘ کھٹکھٹایا اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا : میں تم کو خوشخبری سناتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے باندی کو حرام کرلیا۔ میں کہتا ہوں ‘ اس حدیث میں حضرت ماریہ کے قصے کو اور حضرت حفصہ ؓ کے پاس شہد پینے کے واقعے کو ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ شاید راوی نے ایسا کیا ہو لیکن حضرت زینب ؓ کے گھر شربت پینے کا کوئی ذکر اس میں نہیں کیا گیا۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ تمام اسباب نزول میں حضرت ماریہ ؓ کے قصہ کو شان نزول قرار دینا ‘ زیادہ قوی ہے کیونکہ اس میں صرف حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ سے آیت کا تعلق ثابت ہوگا۔ شہد والے واقع سے کوئی تعلق نہ ہوگا لیکن شہد پینے کے قصے کو اگر سبب نزول قرار دیا جائے گا تو اس میں حضرت سودہ اور حضرت صفیہ کا حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ متفق ہونا ضروری قرار پائے گا (حالانکہ اِنْ تَتُوْبَا اور قُلُوْبُکُمَا میں تثنیہ کی ضمیریں ہیں ‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتفاقِ رائے صرف دو عورتوں کا تھا) ۔ تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم . ” آپ چاہتے ہیں اپنی بیویوں کی خوشنودی اور اللہ بخشنے والا ‘ مہربان ہے۔ “ یہ تحریم کی تشریح ہے یا جملۂ مستانفہ ہے ‘ جس میں تحریم کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ : یعنی آپ سے یہ لغزش ہوگئی کہ اللہ نے جس چیز کو آپ کے لیے حلال بنایا تھا ‘ آپ ﷺ نے اس کو قسم کھا کر اپنے لیے حرام کرلیا۔ اللہ آپ ﷺ کی اس لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔ رَّحِیْمٌ : یعنی اللہ نے آپ ﷺ پر اپنی رحمت کو خود ساختہ تحریم سے نکلنے کا راستہ اس نے آپ ﷺ کے لیے بنا دیا اور آپ ﷺ سے مواخذہ نہیں کیا اور آپ ﷺ کو ناجائز اَمر سے بچانے کے لیے اظہار ناگواری کردیا۔
Top