بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی1 اپنے اوپر کیوں حرام کیے لیتے ہو ؟ وہ چیز جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی، کیا اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
حضور کی زیادہ ازواج مطہرات پر عیسائی اور آریوں کے اعتراض پر جواب۔ (ف 1) شان نزول : ہر زوجہ مطہرہ کو محبت اور تعلق حضور کے ساتھ تھا اور ہر ایک زوجہ کی تمنا اور کوشش تھی کہ وہ زائد از زائد حضور کی توجہات کامرکز بن کردارین کی برکات وفیوض سے متمع ہو آپ کی عادت تھی کہ عصر کے بعد سب ازواج کے ہاں تھوڑی دیر کے لیے تشریف لے جاتے جب ام المومنین زینب بنت جحش ؓ کے یہاں حضور تشریف لے جاتے تو وہ شہدپیش کرتیں، اس ذریعہ سے انکے یہاں کچھ زیادہ تشریف فرمارہتے ، یہ بات حضرت عائشہ وحفصہ ؓ وغیرہما کو ناگوار گذری اور انہیں رشک ہوا انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ جب حضور ﷺ تشریف فرما ہوں تو عرض کیا جائے کہ دہن مبارک سے مغافیر کی بوآرہی ہے اور مغافیر کی بوحضور ﷺ کو ناپسند تھی چناچہ ایسا کیا گیا کہ حضور کو ان کا منشامعلوم تھا فرمایا، مغافیر تو میرے قریب نہیں آیا، زینب کے یہاں شہد میں نے پیا ہے اس کو میں اپنے اوپر حرام کرتا ہوں مقصود یہ کہ حضرت زینب کے یہاں شہد کاشغل ہونے سے تمہاری دل شکنی ہوتی ہے تو ہم شہد ہی ترک کردیتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس شان نزول میں یہ بھی کہ نبی ﷺ ام المومنین حفصہ ؓ کے ہاں رونق افروز ہوئے وہ حضور کی اجازت سے اپنے والد حضرت عمر کی عیادت کے لیے تشریف لے گئیں، حضور نے حضرت ماریہ قبطیہ کو سرفراز خدمت کیا یہ حضرت حفصہ پر گراں گزراحضور نے فرمایا کہ میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیا ار میں تمہیں خوش خبری سناتا ہوں کہ میرے بعد امور امت کے مالک ابوبکر وعمر ؓ ہوں گے وہ اس سے خوش ہوگئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت عائشہ کو سنائی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ جو چیزیں اللہ نے آپ کے لیے حلال کی یعنی ماریہ قبطیہ آپ انہیں اپنے لیے کیوں حرام کیے لیتے ہیں اپنی بی بیوں حفصہ اور عائشہ ؓ کی رضاجوئی کے لیے۔ فلسفہ تعدد ازواج۔ بعض علماء عیسائی نے اسلام پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھنا بڑی معیوب بات ہے، اور اسی باب میں خاص نبی آخرالزمان ﷺ کی ذات پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نوعورتوں کا آپ کے نکاح میں ایک ساتھ ہونا غلبہ خواہش نفسانی کی علامت ہے جو نبوت کی شان کے برخلاف ہے اہل اسلام نے ان اعتراضات کے جو جواب دیے ہیں ان کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔ (نمبر 1) اہل کتاب اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے ہیں اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت اور طریقہ کو اپنے اس اعتراض میں گویا معیوب ٹھہراتے ہیں کیونکہ کوئی اہل کتاب اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک ساتھ ساراوہاجرہ دوبی بیاں تھیں۔ (2) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی چار بیویاں تھیں جن کا کوئی اہل کتاب انکار نہیں کرسکتا، تورات کی کتاب التکوین کا 29 واں باب دیکھنا چاہیے۔ (3) حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کی بیبیوں کی کثرت کا کسی اہل کتاب کا انکار نہیں کیونکہ صحائف مقدسہ میں کے صحیفہ سمویل ثانی کے پانچویں باب میں حضرت داؤد کا اور صحیفہ ملوک اول کے گیارویں باب میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ ذکر موجود ہے۔ (4) تورات کی کتاب الاستثناء کے اکیسویں باب میں ایک سے زیادہ بی بیوں کے ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کی اجازت موجود ہے اسی لیے یہ اعتراض تورات کے خلاف ہے حالانکہ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی دونوں شریعتوں میں تورات واجب العمل ہے۔ (5) جوش جوانی گذرجانے کے بعد 53 برس کی عمر کے قریب نبی آخزالزمان نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے قیام کے زمانہ میں پہلے حضرت خدیجہ اور پھر حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد حضرت سودہ، اس طرح سے 53 برس کی عمر تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بی بی رہی، ہجرت کے بعد اہل اسلام کی عورتوں کی کثرت ہوئی اور عورتوں سے خصوصیت رکھنے والے ایسے مسائل مدینہ میں نازل ہوئے جن کی تعلیم اجنبی عورتوں کے ذریعہ ممکن نہ تھی تو اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول نے معلمہ دینی کے طور جوش جوانی کا زمانہ گزرجانے کے بعد دینی ضرورت سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں۔ غرض اس طرح سے زیادہ سے زیادہ عورتوں کا نکاح میں رکھنا آپ کے نبی ہونے کی پوری دلیل ہے جو کوئی اس غلبہ خواہش نفسانی کی علامت بتلاتا ہے اس کا قول تاریخی واقعات کے بالکل برخلاف ہے۔ عیسائی علماء کے دیکھا دیکھی بعض آریہ فرقہ کے لوگوں نے بھی یہی اعتراض کیا اسلام پر کہ اہل اسلام نے پہلاجواب تو اس اعتراض کا وہی دیا ہے جو سورة طلاق میں گزرا کہ وید جب تک کتاب آسمانی ثابت نہ ہوں آریہ فرقے کے لوگوں کو کسی آسمانی کتاب پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں، پھر فرقے آریہ کے الزام دینے کو یہ جواب بھی دیا ہے کہ پندٹ دیانندی کی، ستیارتھ پر کاش، کے موافق جس طرح دائم المرض مرد کی عورت کی نیوگ کی اجازت ہے اسی طرح دائم المرض عورت کے مرد کو بھی نیوگ کی اجازت ہے یہ ایک ظاہر بات ہے کہ آریہ مذہب کے احکام کی خامی اور کوتاہی کے سبب سے نیوگ کی بدکاری آریہ مذہب میں داخل ہوئی ورنہ طلاق کا حکم آریہ مذہب کی کتابوں میں ہوتا تو دائم المرض مرد کی عورت بیمارشوہر سے طلاق حاصل کرکے دوسرا شوہر کرسکتی تھی ، اسی طرح دوسری عورت سے شادی کا حکم آریہ مذہب میں ہوتاتودائم المرض عورت کا شوہر دوسری شادی کرسکتا تھا یہ احکام کی خامی اس بات کی گواہ ہے کہ وید کی کتاب آسمانی نہیں کیونکہ آسمانی کتاب میں اس طرح کی احکام کی خامی کوئی مخالف ہرگز نہیں بتلاسکتا ، اور یہی احکام کی پختگی قرآن کی کتاب آسمانی ہونے کی پوری دلیل ہے اس کی تفصیل سورة طلاق میں گذرچ کی ہے۔
Top