بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی ﷺ ! آپ کیوں حرام قرار دیتے ہیں اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لئے حلال ٹھہرائی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں خوشنودی اپنی بیویوں کی ؟ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة التحریم ہے ، اس کو سورة النبی بھی کہا جاتا ہے یہ سورة مدنی زندگی میں نازل ہوئی۔ اس کی بارہ آیتیں اور دو ررکوع ہیں اور یہ سورة 249 الفاظ اور 1060 حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : یہ سورة اس سے پہلی سورة الطلاق کے ساتھ مربوط ہے۔ دونوں سورتوں میں بعض عائلی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ البتہ دونوں سورتوں میں ربط یہ ہے کہ پہلی سورة میں عدوات ونفرت کی بنا پر پیدا ہونے والے حالات سے متعلق قوانین تھے جب کہ اس سورة میں محبت و چاہت سے پیدا ہونے والے بعض معاملات سے متعلق قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موقع خوشی کا ہو یا غمی کا۔ الفت و محبت کی بات ہو یا غصہ اور ناراضگی کی ہر حالت میں اعتدال کو قائم رکھنا چاہیے۔ ایسے مواقع پر جب عدل کا دامن چھوٹ جاتا ہے تو پھر طرح طرح کی خرابیاں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لئے حضور ﷺ نے یہ دعا سکھلائی ہے۔ اللھم انی اسئلک العدل فی الرضی والغضب واسئلک القصد فی الغنی وافقر ، اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے خوشی اور ناراضگی میں عدل و انصاف کی توفیق عطا فرما اور تونگری اور محتاج میں میانہ روی عطا فرما۔ گزشتہ سورة میں طلاق اور اس سے متعلقہ مسائل بیان ہوئے تھے۔ جب یہاں بیوی میں نفرت وعداوت کے جذبات جنم لیتے ہیں تو پھر نوبت اطلاق تک پہنچتی ہے۔ چناچہ اللہ نے طلاق ، عدت ، رہائش ، خرچہ اور رضاعت ، وغیرہ کے معاملات میں قانون نازل کرکے میانہ روی اور عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ اور اس سورة میں پیار و محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کسی فرد گزاشت سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس موقع پر بھی میانہ روی اور عدل کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ایسے ہی موقع پر حضور ﷺ سے ایک ایسی بات ہوگئی تھی جو اگرچہ ناجائز یا گناہ والی بات نہیں تھی تاہم وہ خلاف اولیٰ یعنی بتر نہیں تھی ، لہٰذا اللہ نے یہ آیات نازل فرما کر حضور ﷺ کو متنبہ کردیا کہ آپ کی ذات سے ایسی معمولی لغزش بھی سرزد نہیں ہونی چاہیے۔ ازواج مطہرات ؓ کے لئے تنبیہ : اس سے پہلے حضور ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ کو ایک تنبیہ کا ذکر سورة احزاب میں ہوچکا ہے۔ آپ کی بیویوں نے آپ سے زیادہ خرچہ طلب کیا تو آپ ان سے ناراض ہوگئے اور ان سے ایلاء کرلیا جس کی بناء پر ایک ماہ تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہے ، اس پر اللہ نے ازواج ؓ کو سخت تنبیہ فرمائی کہ وہ حضور ﷺ کی ناراضگی کا باعث کیوں بنی ہیں ؟ اور پھر اللہ نے سورة کے چوتھے رکوع میں آیات تیخیر نازل فرمائیں کہ اے نبی ﷺ آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کردوں۔ اور اگر تم اللہ ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طلبگار ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لئے اجر عظیم تیار کررکھا ہے (آیت 28- 29) ۔ آج کے درس میں بھی ایک ایسے ہی واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیلات صحیحین اور حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بعد از نماز عصر تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے سب ازواج ؓ کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔ ام المومنین حضرت زینب ؓ کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا۔ جب حضور ﷺ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو شہد پیش کرتیں جسے آپ شوف سے نوش فرماتے ، صحیح روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ یحب الحلوا والعسل ، یعنی آپ میٹھی چیز اور خصوصاً شہد کو بہت پسند فرماتے تھے چناچہ آپ حصرت زینب ؓ کے ہاں کچھ زیادہ وقت دے دیتے۔ اس پر ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے ایک ترکیب کے ذریعے حضور ﷺ سے شہد چھڑانے کی کوشش کی ، تو اس واقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ازواج مطہرات ؓ کو تنبیہ فرمائی بلکہ خود حضور ﷺ کو تنبیہ کی کہ آپ ازواج مطہرات ؓ کی خاطر ایک حلال چیز کو اپنے لئے کیوں ممنوع قرار دیتے ہیں۔ واقعہ کی تفصیل : شہد کی مکھی کی یہ فطرت ہے کہ وہ گندی چیز پر نہیں بیٹھتی۔ بلکہ ہمیشہ پاکیزہ چیزوں از قسم کھجور ، انگور اور دیگر پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے۔ مغافیر ایک پودے کا نام ہے جس سے گوند نکلتی ہے۔ اگرچہ یہ پودا بالکل پاکیزہ ہوتا ہے تاہم اس سے نکلنے والی گوند سے کسی قدر بو آتی ہے۔ شہد کی مکھی جس پھل یا پھول کا رس چوستی ہے اس کا اثر شہد میں بھی آجاتا ہے ۔ اس حقیقت کے پیش نظر حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کا منصوبہ یہ تھا کہ جب حضور ﷺ ان کے ہاں تشریف لائیں تو وہ آپ کو باور کرائیں کہ آپ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو شہد پیا ہے۔ حضرت حفصہ ؓ کہنے لگیں ، تو پھر شاید شہد کی مکھی نے مغافیر چوسا ہو جس کا اثر شہد میں آگیا ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آئے تو انہوں نے بھی مغافیر کی بو کی شکایت کی۔ اس پر حضور ﷺ کہ شہد میں مغافیر کی بو کا یقین ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ آئندہ میں شہد استعمال نہیں کروں گا گویا خود اپنے اوپر شہد کو ممنوع کرلیا۔ ایک دوسرا واقعہ : بعض مفسرین ایک دوسرا واقعہ بھی اسی سلسلے میں بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کسی روز حضرت حفصہ ؓ کے گھر گئے مگر وہ اپنے والدین کے ہاں گئی ہوئی تھیں ۔ آپ نے اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ ؓ کو وہاں بلا لیا۔ جس نے رات بھر حضور ﷺ کے ساتھ ہی قیام کیا۔ جب حضرت حفصہ ؓ واپس آئیں تو انہوں نے ماریہ قبطیہ ؓ کی ان کے گھر میں شب باشی کا برا منایا۔ یہ عورتوں کی فطرت ہے وگرنہ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں تھی۔ اس پر حضور ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کی خوشنودی کے لئے قسم اٹھالی کہ میں آئندہ اس لونڈی کے پاس نہیں جائوں گا۔ گویا لونڈی کو اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا۔ حضور ﷺ کا یہ عمل کوئی غیر اخلاقی یا گناہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کو حرام قرار دیا جاسکتا تھا۔ امام زمحشری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ایک معمولی سی لغزش تھی۔ جب کہ بعض دوسرے مفسرین اس کو لغزش بھی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ تو ایک خلاف اولیٰ بات تھی۔ حضور ﷺ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے اور خود بھی اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ ہی پیش آتے تھے۔ البتہ جہاں کہیں کوئی قانون متاثر ہوتا ہو یا شریعت میں نقصان کا خطرہ ہو یا امت کے لئے کوئی اسوہ قائم ہوجاتا ہو۔ وہاں حضور اللہ کے قانون کی پابندی فرماتے تھے۔ تاکہ امت کے لئے آسانی پیدا ہو۔ بہرحال ان آیات کا مصداق یہ دو واقعات ہیں۔ یا تو آپ نے شہد کو یا لونڈی کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دی تھیں۔ اسی بناء پر اللہ نے ان آیات میں سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ مضامین سورة : ابتدائی آیات کے شان نزول میں میں نے عرض کردیا کہ یہ اس معمولی سی لغزش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت تنبیہ تھی۔ اس کے علاوہ اس سورة مبارکہ میں توبہ کا مسئلہ بھی بیان کیا گیا ہے اگر کوتاہی ہوجائے تو تمام مومنین اور مومنات کے لئے لازم ہے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرلیں۔ اللہ نے یہ مسئلہ بھی بیان فرما دیا کہ ہر مسلمان کو اپنے گھر کی اصلاح کرنی چاہیے اور خود اپنی بھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہنم کا منہ دیکھنا پڑے اس کے بعد انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر ہے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے اور منافقوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم بھی دیا گیا ہے پھر اللہ نے مثال کے طور پر دو کامل الایمان اور قانون کی پابندی کرنے والی عورتوں حضرت آسیہ ؓ بنت مزاحم اور حضرت مریم ؓ بنت عمران کا ذکر کیا ہے۔ نیز دو کافرہ عورتوں یعنی زوجہ نوح (علیہ السلام) اور زوجہ لوط (علیہ السلام) کی مثال بھی بیان فرمائی ہے۔ شہد یا لونڈی کی حرمت : سورۃ کا آغاز مذکورہ واقعہ تحریم سے ہوتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک اے نبی ! آپ کیوں حرام قرار دیتے ہیں اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لئے حلال کی ہے۔ شہد ہو یا لونڈی دونوں چیزیں حضور ﷺ کے حلال تھیں مگر آپ نے خود انہیں اپنے لئے ممنوع کرلیا۔ فرمایا تبتغی مرضات ازواجک کیا آپ اپنی عورتوں کی خوشنودی چاہتے ہیں جس کی وجہ سے شہد یا لونڈی کو حرام قرار دیا ہے ؟ حرام قرار دینے کا یہ مطلب نہیں کہ شرعاً یا عقیدتاً حرام کرلیا تھا بلکہ محض اس کا استعمال حرام قرار دے لیا تھا۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ کی بناء پر کسی جائز چیز کا استعمال ترک کردے تو اس طرح وہ چیز شرعاً حرام ہیں ہوجاتی کیونکہ یہ اس کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی مباح چیز کو عقیدتاً حرام سمجھتا ہے تو یہ بدعت ہے اور آدمی مشرک ہوگا۔ البتہ حضور ﷺ کی شان چونکہ بہت بلند ہے ، اس لئے آپ سے معمولی سی لغزش بھی گوارا نہیں کی گئی اور تنبیہ کی گئی کہ آ پنے اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر یہ کام کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ آپ کو ایسی خلاف اولی بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔ فرمایا واللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے اس نے آپ کی یہ لغزش معاف کردی ہے مگر آپ آئندہ ایسان نہ کریں۔ قسم اور کفارہ : اس کے بعد اللہ نے قسم اور اس کے کفارہ قانون بیان فرمایا ہے۔ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم تحقیق اللہ نے تمہاری قسموں کو کھول دینے کو فرض قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر قسم اٹھالی ہے تو اس کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردو ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اس حکم کے مطابق قسم کو توڑ کر ایک غلام یا لونڈی آزاد کردی تھی۔ یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں حضور ﷺ نے کوئی قسم تو نہیں اٹھائی تھی جس کو توڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ آپ نے تو محض ایک مباح چیز کو اپنے آپ پر ممنوع قرار دے لیا تھا۔ اس ضمن میں مسلم شریف میں مذکورحضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت پیش کی جاتی ہے اذا حرم الرجل امراتہ فھویمین یکفرھا جب کوئی شخص اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیتا ہے تو ہر قسم شمار ہوتی ہے جس کا کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دینی چاہیے۔ البتہ یہ بات وضاحت طلب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تو مجھ پر حرام ہے تو امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ لفظ چونکہ صریح نہیں بلکہ کنایہ ہے ۔ لہٰذا اگر وہ شخص طلاق کی نیت سے ایسا کہتا ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور اگر ظہار کی نیت ہے تو ظہار تصور ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شخص کہے کہ عورت کی ذات مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم ہوگی۔ اور اگر کہے کہ میں نے اس سے کچھ ارادہ نہیں کیا ، تو ایک روایت کے مطابق یہ بھی قسم ہوگی۔ جب کہ دوسری روایت کے مطابق قسم شمار نہیں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کردیتا ہے تو اگر اس کی نیت طلاق کی ہے تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ، اور اگر تین طلاقوں کی نیت کرے گا تو تینوں واقع ہو کر عورت مغلظہ ہوجائے گی۔ اگر وہ شخص کہے کہ میں نے یہ جھوٹی بات کہی ہے وگرنہ میرا ارادہ کچھ نہیں تھا تو یہ لغوبات شمار ہوگی مگر قسم پھر بھی واقع ہوجائے گی اور کفارہ دینا پڑے گا۔ یہ مسئلہ صرف عورت کی حرمت تک ہی محدود نہیں بلکہ کسی بھی مباح چیز مثلاً کھانا یا کپڑے وغیرہ کے متعلق کہتا ہے کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے تو وہ قسم ہوگی اور شخص متعلقہ کو کفارہ ادا کرنا پڑیگا۔ عام قانون بھی یہی ہے کہ اگر کسی جائز معاملہ میں بھی قسم اٹھالی مگر دوسرا پہلو بہتر ہے تو قسم کو توڑ دینا چاہیے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسے معاملہ میں میں قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کردیتا ہوں۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ نیکی کے اعتبار سے کسی قسم پر اصرار کرنا اچھا نہیں ہے۔ اس کی بجائے قسم توڑ کر کفارہ ادا کردینا زیادہ بہتر ہے قسم کے مسائل سورة البقرۃ اور سورة المائدۃ میں بیان ہوچکے ہیں۔ اول تو قسم اٹھانی ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر کوئی جائز مجبوری ہے تو پھر یہ برائت کے لئے ہوتی ہے کہ انسان قسم اٹھا کر کسی الزام سے بری ہوجائے۔ اور اگر کوئی غیر اولی بات ہوگئی ہے تو پھر قسم توڑ کر کفارہ ادا کردینا چاہیے۔ فرمایا واللہ مولکم اللہ ہی تمہارا آقا اور کار ساز ہے۔ وھو العلیم الحکیم اور وہ سب کچھ جاننے والا اور حکمتوں والا ہے وہ تمہاری نیت اور ارادے سے بھی واقف ہے اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے مال کے متعلق کہتا ہے یہ مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم ہوگی۔ اسے چاہیے کہ قسم کا کفارہ ادا کرکے مال کو اپنے کام میں لائے۔ یہ حکم بیوی ، کھانا ، کپڑا ، پھل ، گوشت سب چیزوں پر لاگو ہے۔
Top