Mutaliya-e-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
روز جزا کا مالک ہے
[ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ : جو بدلے کے دن کا مالک ہے ] م ل ک [ مَلَکَ یَمْلِکُ (ض) مِلْکًا : مالک ہونا ‘ غالب ہونا ‘ اختیار رکھنا۔ { قُلْ لاَّ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا } (الاعراف :188) ” آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ میں اختیار نہیں رکھتا اپنے نفس کے لیے کسی نفع کا اور نہ ہی کسی نقصان کا۔ “ مُلْکٌ : ملکیت ‘ جس پر اختیار و اقتدار حاصل ہو۔ { قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ } (آل عمران :26) ” آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ اے اللہ ملک کے مالک تو ملک دیتا ہے جس کو تو چاہتا ہے اور تو ملک چھین لیتا ہے جس سے تو چاہتا ہے۔ “ مَلِکٌ جمع مُلُوْکٌ : بادشاہ۔ { وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ } (یوسف :54) ” اور بادشاہ نے کہا کہ اسے لے آئو میرے پاس۔ “{ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا } (النمل :34) ” بیشک بادشاہ جب داخل ہوتے ہیں کسی بستی میں تو اس میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ “ مَلَکٌ ج مَلَائِکَۃٌ : فرشتہ۔ { قُلْ لاَّ اَقُوْلُ لَـکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا اَقُوْلُ لَـکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ} (الانعام :50) ” آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ میں نہیں کہتا تم سے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور میں نہیں جانتا غیب کو اور میں نہیں کہتا کہ تم سے کہ میں فرشتہ ہوں۔ “ مَلَکُوْتٌ : بادشاہت (یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کے لیے مخصوص ہے) { اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } (الاعراف :185) ” تو کیا یہ لوگ نظر نہیں کرتے زمین اور آسمانوں کی بادشاہت میں۔ “ د ی ن دَیَنَ یدین (ض) دَیْنًا : قرض دینا۔ دَیْنٌ : قرض۔ (قرض مصدر ہے۔ عربی میں اکثر مصدر بطور اسم الذات بھی استعمال ہوتے ہیں) ۔ { مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَا اَوْدَیْنٍ } (النسائ :11) ” وصیت کے بعد جو اس نے وصیت کی یا قرضہ کے بعد۔ “ دِیْنٌ : بدلہ ‘ ضابطہ ۔ { وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ} (النسائ :125) ” اور اس سے زیادہ اچھا کون ہے ‘ ضابطہ کے لحاظ سے ‘ جس نے جھکا دیا اپنا چہرہ اللہ کے لیے اور وہ احسان کرنے والا ہے۔ “ اَلدِّیْنُ : اسلام کا ضابطہ حیات۔ { اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامِ } (آل عمران :19) ” بیشک اصل ضابطہ اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔ “ مَدِیْنٗ : مقروض۔ جس سے حساب لیا جانا ہے۔{ ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرٰبًا وَّعِظَامًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ } (الصّٰفٰت :53) ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم حساب لیے جانے والے ہوں گے۔ “ تَدَایَنَ یَتَدَایَنُ (تفاعل) تَدَایَنًا : باہم ادھار پر لین دین کرنا۔ { اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُـبُوْہُ } (البقرۃ :282) ” جب تم لوگ قرض کا لین دین کرو ایک مقررہ مدت کے لیے تو اسے لکھ لو۔ “ دِیْنٌ : قرضہ میں واپسی کا مفہوم از خود شامل ہے۔ ہر عمل کی جزا عمل کرنے والے کے لیے ہوتی ہے جو اس کو واپس ملنی ہے۔ اس طرح اس میں بدلہ کا مفہوم شامل ہوا لیکن بدلہ کے لیے دین کے بجائے دین کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پھر بدلہ کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ کوئی ضابطہ یا قانون ہو جس کے مطابق بدلہ ملے۔ اس طرح دِیْنٌ کا لفظ ضابطہ کے معنی بھی دیتا ہے۔ ترکیب :” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ مرکب اضافی ہے۔ اس کے مضاف ” مٰلِکِ “ کی جر بتارہی ہے کہ یہ پورا مرکب ” اَللّٰہِ “ کی صفت یا بدل ہے۔ نوٹ (1): انسان جب اپنے ماحول پر غور کرتا ہے تو زمین کی ایک گردش کی وجہ سے وہ چاند اور سورج کو نکلتے ڈوبتے اور چاند کو گھٹتے بڑھتے دیکھتا ہے۔ زمین کی دوسری گردش کی وجہ سے موسم کو تبدیل ہوتے دیکھتا ہے۔ ہوا ‘ بادل اور بارش کا نظام دیکھتا ہے۔ پودوں کے اگنے ‘ بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا نظام دیکھتا ‘ اور ہر ایک نظام اپنی جگہ اتنا بےعیب اور پر فیکٹ نظر آتا ہے کہ وہ تعریف کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ پھر جب وہ ان کی تخلیق کے مقصد پر غور کرتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ یہ پور انظام شمسی اس کی زندگی کی بقا ‘ اس کی ضروریات کی بہم رسانی اور اس کی خدمت کے لیے تخلیق کیا گیا ہے تو اس کے دل کی گہرائیوں سے شکر کا جذبہ ابلتا ہے اور وہ بےساختہ پکار اٹھتا ہے کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا ہے۔ اس پہلو سے پوری سورة الفاتحہ دراصل انسان کی فطرت کا پکار ہے۔ نوٹ (2): ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انسان اگر اپنے ماحول کا مشاہدہ کرے اور غور و فکر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ کے وجود ‘ اس کی صفات کمال اور آخرت کے تصور تک اس کی عقل از خود رسائی حاصل کرسکتی ہے۔ اس کے لیے وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔
Top