Al-Qurtubi - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” ومن الناس من یعجبک قولہ “ جب ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی ہمتیں اور توانائیاں دنیا پر ہی محدود ومحصور ہوگئیں (یعنی ان کی صلاحتیں اور کو شیش فقط دنیا کے لئے ہی صرف ہوئیں) (یعنی) اس ارشاد گرامی میں (آیت) ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا “۔ (بقرہ : 200) اور ان مومنین کا ذکر کیا جنہوں نے دونوں جہان کی خیر اور منفعت کا سوال کیا، تو اب منافقین کا ذکر کیا، کیونکہ انہوں نے ایمان کو ظاہر کیا اور کفر کو چھپا کر رکھا۔ سدی وغیرہ مفسرین نے کہا ہے : یہ آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کا نام ابی تھا اور اخنس اس کا لقب تھا۔ اس کا یہ لقب اس لئے تھا کیونکہ وہ غزوہ بدر کے دن اپنے حلفاء میں سے بنی زہرہ کے تین سو افراد کو ساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کرنے سے پیچھے ہٹ گیا تھا (اور لشکر کفار سے واپس چلا گیا تھا) جیسا کہ اس کی تفصیل سورة آل عمران میں آئے گی۔ وہ انتہائی شیریں بیان اور حسین المنظر آدمی تھا۔ سو اس کے بعد وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اپنا اسلام ظاہر کیا اور یہ کہا : اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں اپنے قول میں سچا ہوں، پھر اس کے بعد بھاگ گیا۔ اس کا گزر مسلمانوں میں سے ایک قوم کی کھیتی کے پاس سے ہوا اور وہاں ساتھ گدھے بھی تھے، تو اس نے کھیتی کو جلا دیا اور گدھوں کی کونچیں کاٹ دیں۔ مہدوی نے کہا ہے : اسی کے بارے میں یہ آیات بھی نازل ہوئیں۔ (آیت) ” ولا تطع کل حلاف مھین، ھماز مشآء بنمیم، (قلم) (اور نہ بات مانیے کسی (جھوٹی) قسمیں کھانے والے ذلیل شخص کی جو بہت نکتہ چین، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے) اور (آیت) ” ویل لکل ھمزۃ لمزہ “ ، (ہمزہ) (اور ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لئے جو (روبرو) طغنے دیتا ہے (پیٹھ پیچھے) عیب جوئی کرتا ہے) ابن عطیہ نے کہا ہے : کبھی بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ اخنس نے اسلام قبول کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت منافقین کی ایک قوم کے بارے نازل ہوئی، انہوں نے ان لوگوں کے بارے میں باتیں کیں جو غزوہ رجیع میں شہید کردیے گئے یعنی حضرت عاصم بن ثابت اور حضرت خبیب وغیرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین منافقین نے کہا : ان لوگوں پر افسوس ہے کہ نہ یہ اپنے گھروں میں بیٹھے اور نہ ہی یہ اپنے صاحب (مراد حضور نبی کریم ﷺ ہیں) کا پیغام پہنچا سکے۔ پس یہ آیت منافقین کی صفات کے بارے میں نازل ہوئی۔ پھر غزوہ رجیع میں جام شہادت نوش کرنے والوں کا ذکر اس طرح فرمایا : (آیت) ” ومن الناس من یشری نفسہ البتغآء مرضات اللہ “۔ (بقرہ : 207) ترجمہ : اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو بیچ ڈالتا ہے اپنی جان (عزیز) بھی اللہ کی خوشنودیاں حاصل کرنے کے لئے) حضرت قتادہ، مجاہد اور علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے : یہ آیت ہر اس (بندے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے باطن میں کفر، نفاق، کذب یا اضرار (کسی کو نقصان اور ضرر پہنچانا) چھپا ہو اور وہ اپنی زبان سے اس کے خلاف اظہار کرتا ہو۔ پس یہ آیت عام ہے اور یہ اس حدیث سے مشابہت رکھتی ہے جو ترمذی میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض کتب میں ہے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک قوم ہوگی جن کی زبانیں شہد سے زیادہ شیریں ہوگی اور ان کے دل مبصر سے زیادہ کڑوے ہوں گے۔ وہ نرمی سے بھیڑوں کے چمڑے لوگوں کو پہنائیں گے اور وہ دین کے عوض خریدیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : کیا وہ مجھے دھوکہ دیتے ہیں اور وہ مجھ پر جرات کرتے ہیں ؟ مجھے قسم ہے میں ضرور بضرور ان پر ایسا فتنہ مسلط کر دوں گا جو ان میں سے حلیم کو حیران و ششدر کر چھوڑے گا۔ (1) (المحرر الوجیز، زیر آیت ہذہ) ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” ویشھد اللہ “ کا معنی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے : اللہ تعالیٰ جانتا ہے بلاشبہ میں حق کہہ رہا ہوں، ابن محیصن نے اسے (آیت) ” ویشھد اللہ علی ما فی قلبہ “۔ یعنی یشھد میں یا اور ہا کو مفتوح اور لفظ اللہ کو مرفوع پڑھا ہے۔ اور معنی یہ ہے ” اس کی بات تجھے پسند آئی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے قول کے خلاف کو جانتا ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون “۔ (المنافقون : 1) ترجمہ : لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ منافق قطعی جھوٹے ہیں) حضرت ابن عباس ؓ کی قرات (آیت) ” واللہ یشھدعلی مافی قلبہ “ اور جماعت کی قرات مذمت میں زیادہ بلیغ ہے کیونکہ اس نے اپنے نفس پر اچھا کلام لازم کرنے کی قوت رکھی اور پھر اس کے باطن سے اس کے خلاف ظاہر ہوا۔ اور حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ نے (آیت) ” ویستشھد اللہ علی مافی قلبہ “ پڑھا ہے۔ اور یہ جمہور کی قرات کی دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں ان امور کے بارے میں انتہائی احتیاط برتنے پر دلیل اور تنبیہ ہے جو دین اور دنیوں امور سے متعلق ہیں اور گواہوں اور قاضیوں کے احوال کے بارے میں طلب برات پر دلیل ہے، بلاشبہ حاکم لوگوں کے ظاہر احوال پر اور جو کچھ ان کے ایمان اور مصالح میں سے ظاہر ہو اس پر عمل نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ ان کے باطن کے بارے میں بحث کرلے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے احوال بیان فرما دیے ہیں۔ اور بلاشبہ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو بظاہر انتہائی خوبصورت اور حسین بات کرتے ہیں حالانکہ وہ نیت قبیح کرتے ہیں (یعنی ان کی نیت میں فتور اور برائی ہوتی ہے۔ ) پس اگر کہا جائے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اس کے معارض آتا ہے : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہیں ” لا الہ الا اللہ “ الحدیث : (1) (بخاری شریف : باب قتل من ابی قبول الفرائض الخ :، حدیث نمبر 6413، ضیاء القرآن کیشنز) اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اس کے خلاف ہے : ” میں اس کے لئے اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں “۔ (2) (بخاری شریف : باب اذا اغصب جاریۃ الخ :، حدیث نمبر 6452، ضیاء القرآن کیشنز) تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح ابتدائے اسلام میں تھا جہاں کا اسلام ہی ان کی سلامتی کا باعث تھا لیکن جب فساد عام ہوگیا تو پھر یہ حکم نہ رہا۔ حضرت ابن عربی (رح) نے یہی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : صحیح بات یہ ہے کہ ظاہر کے مطابق عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کا خلاف ظاہر ہوجائے۔ کیونکہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ارشاد فرمایا : صحیح بخاری میں ہے : اے لوگو ! بلاشبہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، بلاشبہ اب ہم تمہیں تمہارے ان اعمال سے پکڑیں گے جو ہمارے لئے ظاہر ہوں گے۔ پس جس نے ہماے لئے خیر اور بھلائی کو ظاہر کیا تو ہم اسے امن عطا کریں گے اور ہم اسے قرب عطا کریں گے۔ اس کے اور پوشیدہ چیزوں میں سے کوئی شے ہمارے لئے (باعث تشویش) نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیزوں کے بارے میں اس کا محاسبہ فرمائے گا اور جس نے ہمارے لئے برائی کو ظاہر کیا، تو ہم نہ اسے امان دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے، اگرچہ وہ کہے گا کہ اس کے دل اور ارادہ میں نیکی اور اچھائی ہے۔ (3) (بخاری شریف : باب الشھداء العدول، :، حدیث نمبر 2447، ضیاء القرآن کیشنز) مسئلہ نمبر : (3) ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” وھو الدالخصام “ اس میں ” الد “ سے مراد سخت اور شدید جھگڑا کرنے والا ہے۔ کہا جاتا ہے : ” ھو رجل الدو امراۃ لداء “ (وہ سخت جھگڑالو مرد اور وہ سخت جھگڑالو عورت ہے۔ ) وھم اھل لدد اور وہ سخت جھگڑا کرنے والے ہیں۔ ” وقد لددت “ اس میں دال مکسور ہے (تو نے جھگڑا کیا) ” تلد “ یہ عین کلمہ کے فتح کے ساتھ ہے۔ ” لددا “ (یعنی یہ باب سمع یسمع ہے۔ ) یعنی تو سخت جھگڑالو ہوگیا۔ اور لددتہ ” الدہ “ یعنی پہلے میں دال مفتوح ہے اور دوسرے میں مرفوع ہے۔ یہ تب کہا جائے گا جب تو کسی سے جھگڑا کرے اور تو اس پر غالب آجائے۔ اور الا لدیہ الدیدین سے مشتق ہے۔ اس سے مراد گردن کی دونوں سطحیں ہیں یعنی جھگڑا میں جس جانب سے بھی پکڑ لیاجائے غلبہ پالیا جاتا ہے۔ شاعر کا قول ہے : والد ذی حنیق علی کا نیا تغلی عداوۃ صدرہ فی مرجل۔ وہ بڑی شدت اور سختی کے ساتھ میرے گلے کو دبانے والا ہے، گویا کہ اس کے سینے کی عداوت ہنڈیا میں کھول رہی ہے۔ ایک دوسرے شاعر نے کہا : ان تحت التراب عزما وحزما وخصیما الد ذامغلاق۔ اس میں بھی خصیما الد سخت جھگڑالو کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ آیت میں الخصام خاصم کا مصدر ہے۔ امام خلیل نے یہی کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خصم کی جمع ہے۔ یہ قول زجاج کا ہے، جیسا کہ کلب کی جمع کلاب، صعب کی جمع صعاب اور ضخم کی جمع ضخام ہے۔ اور اس کا معنی ہے جھگڑا کرنے والوں میں سے سخت اور شدید جھگڑا کرنے والا، یعنی سخت جھگڑالو، جب وہ تجھ سے بات کرے، اور تجھ پر بات دہرائے اور تو اس کے کلام کو خوبصورت اور حسین دیکھے درآنحالیکہ اس کے باطن میں باطل ہو، یہ (معنی) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جھگڑا کرنا جائز نہیں ہوتا مگر ایسے سبب سے جس کا ظاہر اور باطن برابر ہو۔ اور صحیح مسلم (1) (بخاری شریف : قول اللہ تعالیٰ وھو الدالخصام ؛ (بخاری شریف : قول اللہ تعالیٰ وھو الدالخصام، حدیث نمبر 2277، ضیاء القرآن کیشنز) میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے مبغوص ترین آدمی سخت جھگڑا کرنے والا ہے۔ “
Top