بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبیؐ ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ 1 (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ 2۔۔۔۔ اللہ معاف کرنے والا اوررحم فرمانے والا ہے۔ 3
سورة التَّحْرِيْم 1 یہ دراصل استفہام نہیں ہے۔ بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی ﷺ سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے، بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، حتی کہ خود نبی ﷺ بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ اگرچہ حضور ﷺ نے اس چیز کو نہ عقیدۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اسے شرعاً حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اس کے استعمال کو حرام کرلیا تھا، لیکن چونکہ آپ ﷺ کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی، اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے سے یہ خطرہ پیدا ہوسکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا۔ سورة التَّحْرِيْم 2 اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ ﷺ نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کرلی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہوجاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصد صرف حضور ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواج نبی ﷺ ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور ﷺ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کرلیا تھا۔ حضرت ماریہ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول ﷺ نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق (Patriarch) کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نے اسلام قبول نہ کیا، مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا " مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں " (ابن سعد)۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں) مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان بن ثابت کی ملک یمین میں دے دیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضور کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے (الاستیعاب۔ الاصابہ)۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ " مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور کو بہت پسند آئی تھیں "۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس وہاں آگئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپ نے ان کو راضی کرنے کے لیے ان سے یہ عہد کرلیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا نقل ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ " حضور کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ آپ کے پیچھے پڑگئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے "۔ دوسرا واقعہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور دوسری متعدد کتب حدیث میں خود حضرت عائشہ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینب بنت جحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا، اور حضور کو شیرینی بہت پسند تھی، اس لیے آپ ان کے ہاں شہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہ، سودہ اور حضرت صفیہ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آجاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ کو اس سے سخت نفرت ہے کہ آپ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب کے ہاں ٹھیرنے سے روکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپ نے عہد کرلیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت " اب میں ہرگز اسے نہ پیونگا، میں نے قسم کھالی ہے "۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں، وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباس سے بروایت ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لا اشربہ " خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا "۔ اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سے اسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصے کو ناقابل اعتبار ٹھیرایا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ " شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہ کو حرام کرلینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے "۔ قاضی عیاض کہتے ہیں " صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے "۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور یہی رائے امام نووی اور حافظ بدر الدین عینی کی ہے۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ " شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے "۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں " صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے "۔ سورة التَّحْرِيْم 3 یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کردینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کردیا۔
Top