Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 59
وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍ١ؕ وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَالْقَوَاعِدُ : اور خانہ نشین بوڑھی مِنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے الّٰتِيْ : وہ جو لَا يَرْجُوْنَ : آرزو نہیں رکھتی ہیں نِكَاحًا : نکاح فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْهِنَّ : ان پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ يَّضَعْنَ : کہ وہ اتار رکھیں ثِيَابَهُنَّ : اپنے کپڑے غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ : نہ ظاہر کرتے ہوئے بِزِيْنَةٍ : زینت کو وَاَنْ : اور اگر يَّسْتَعْفِفْنَ : وہ بچیں خَيْرٌ : بہتر لَّهُنَّ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور بیٹھ رہنے والی عورتیں جنہیں نکاح کی توقع (ضرورت) نہیں ، ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (بعض) کپڑے اتار لیں (مخصوص طریقے سے اوڑھنیاں نہ اوڑھیں) بشرطیکہ اپنی زینت دکھانا مقصود نہ ہو اور اگر احتیاط برتیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے
عمر رسیدہ عورتوں کے لئے خاص رعایت کا ذکر : 95۔ وہ بوڑھی عورتیں جنہیں اب اولاد کی امید باقی نہیں رہی اور وہ مخصوص اوقات میں الگ تھلگ بھی نہیں رہیں گی اور گھروں میں رہتے ہوئے گھر میں کام کاج کرنے والوں اور عام بچوں میں اگر سر سے دوپٹہ اتار بھی دیں گی یا ان کے سر سے دوپٹہ اتر بھی جائے گا تو ایسی صورت قابل برداشت ہے کیونکہ اب وہ نانی ‘ دادی ہوچکی ہیں اور گھر میں ان کی ذمہ داری کی نوعیت بھی بدل چکی ہے اور ان کو خاص قسم کی زیب وزینت کی ضرورت بھی نہیں رہی کہ ہر بات کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور قوی مضمحل ہوجائیں تو خواہشات بھی سرد پڑجاتی ہیں ۔ ہاں ! ان کے لئے بھی جہالت کے مظاہرہ کی اجازت نہیں تاہم وہ حتی الامکان ایسی صورت حال سے بچیں تو یہ ان کے لئے زیادہ اچھی بات ہے ۔ دورجہالت کے رسم و رواج سے بچنا ان کے لئے بھی ضروری ہے : 96۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ عورتوں کے لئے عام حکم دیا گیا تھا (آیت) ” ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن “۔ وہ اپنی اوڑھنیوں کے آنچل سے اپنے گریبان ڈھانک لیا کریں اب ان بوڑھی عورتوں کو اس حکم سے مستثنی کیا جا رہا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اب ان کو نکاح کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے اگر انہوں نے اپنی اوڑھنیوں کو اس خاص طریقہ سے استعمال نہ کیا تو بھی ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا تاہم انکو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دورجہالت کے رسم و رواج کو دوبارہ اپنے گھروں میں رائج کردیں اور انکی دیکھا دیکھی پر وہی جہالت کی باتیں شروع ہوجائیں اس لئے اتفاق اور بات ہے لیکن جان بوجھ کر اس میں سستی کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے ۔ تاہم بوڑھی عورتیں بھی احتیاط برتیں تو معاشرہ کے لئے اس میں بھلائی ہے : 97۔ زیر نظر آیت میں (القواعد من النسآئ) کے الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں کہ یہ اس قدر بوڑھی اور معمر ہوچکی ہیں کہ ان کو خود خواہشات نفسانی کی حاجت نہ رہی ہو اور انکو دیکھ کر بھی کسی انسان کو اس طرح کا خیال نہ آئے ، ایسی عمر رسیدہ عورتوں کو بھی دور جاہلیت کی عدات وخصائل کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ انکی آسانی کے پیش نظر مکمل طور پر پردہ نہ کرسکنے کے عذر کے پیش نظر ان کو مستثنی کیا گیا ہے ‘ دوسرے لفظوں مین ان معذور عورتوں کے عذر کو منظور کرلیا گیا ہے اور پھر تاکید بھی کی گئی ہے کہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور علم رکھنے والا ہے وہ دلوں کے رازوں سے بھی خوب واقف ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ کس نے دور جہالت کی یاد کو تازہ کرنے کی غرض سے ایسا کیا ہے اور کون فی الواقع معذور ہے ، گھریلو زندگی کے ذکر کے باعث اب گھروں میں کھانا کھانے کے آداب و احکام کو بیان کیا جارہا ہے ۔ جان لینا چاہئے کہ پردہ کا مقصد معاشرتی روابط کا انقطاع نہیں : 98۔ دورجاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ اندھوں ‘ لنگڑوں اور مریضوں کے ساتھ کھانا کھانے سے کراہت کرتے تھے اس لئے ان سے مل کر کھانا نہیں کھاتے تھے حالانکہ کسی شخص کا اندھا ‘ لنگڑا اور مریض ہوجانا اختیاری بات نہیں بلکہ ایسے کمزوروں کو اپنی کمزوری کا بہت خیال رہتا ہے اس لئے ان کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دینا چاہئے اور پھر یہ بھی کہ جب گھروں کے اندر جانے پر پابندیاں عائد کردی گئیں جو گزشتہ آیات میں بیان ہوئی ہیں تو شاید کچھ لوگوں نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ اسلام سوشل آزدیوں کو محدود کرنا چاہتا ہے کہ خاص اپنے عزیزوں ‘ قریبیوں اور رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں کوئی شخص آزادی سے نہیں جاسکے گا اور اس طرح بہت سے وہ لوگ جو معذور ومجبور تھے اور خصوصا اس زمانہ میں جب چو طرفہ جنگ جاری تھی ایسے لوگوں کی کثرت ہو چلی تھی اور ایسے لوگ اپنی مجبوریوں کے باعث یقینا اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں ہی کے گھروں پر گزر بسر کر رہے تھے بلاشبہ انہوں نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ اب ان کی آزادی محدود ہوگئی اس طرح کے بہت سے عوامل پیدا ہوگئے ہوں گے اور لوگ ایک دوسرے سے تبصرے کرتے ہوں گے اور بلاشبہ ہر طرح کی آزادی کے بعد اس طرح کی پابندی بھی بعض طبائع پر شاق گزری ہوگی اس لئے اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے ان سب کے شبہات کو دور کرنے کے لئے ایک ہی آیت میں اس سلسلہ میں بہت سی چیزوں کی وضاحت فرما دی کہ بعض احتیاطی پابندیاں عائد کرنے کا یہ مطلب نہیں جو لوگوں نے سمجھ لیا اور اندھوں ‘ لنگڑوں ‘ اپاہجوں اور مریضوں کو اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے محروف کرنا مقصود نہیں اور اجازت طلب کر کے اندر داخل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے سے روک دیا گیا ہو بلکہ اجازت سے مقصود بعض غلط قسم کے میل جول سے ممانعت کی گئی ہے جس سے انسانی آزادی کو بحال کرنا مقصود ہے نہ کہ انسانی زندگی پر خواہ مخواہ قیود بڑھانا ، خود ہی غور کرلو کہ ایک انسان کو اپنے گھر کے اندر بھی آزادی سے رہنا نصیب نہ ہو اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو بھی جانوروں کی طرح راستوں ہی میں پورا کرنا شروع کر دے تو اس کی انسانی زندگی کی آزادی سلب ہوئی یا انسانی آزادی محدود ہو کر رہگئی اس لئے ان کو بتایا گیا کہ اسلام نے اس بات پر قطعا پابندی عائد نہیں کی کہ وہ اپنے عزیز و قریب کے لوگوں سے آمد ورفت ہی مطلقا بند کردیں ۔ کھانے کے اوقات ہر وقت نہیں ہوتے بلکہ ہر معاشرہ کے اندر کچھ کھانے کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں اور جہاں جہاں جس کا کھانا چلتا ہے سب کو معلوم ہے وقت معین پر اجازت حاصل کرکے اندر جایا جاسکتا ہے اور کھانا کھانے میں کوئی پابندی اس طرح کی عائد نہیں کی گئی کہ معذور لوگ دوسرے لوگوں سے مل کر کھانا نہ کھائیں بلکہ اسلام نے پوری وسعت سے کام لیتے ہوئے آپس میں مل کر یا الگ الگ کھانے کی اجازت برقرار رکھی ہے بلکہ معذوروں کو ہر گھر سے کھانا کھا لینے کی وضاحت کردی ہے اور ساتھ ہی تندرست لوگوں کو ایک طرح سے سمجھا دیا ہے کہ معاشرہ کے معذورلوگوں کے کھانے کا بندوبست کرنا بھی تم پر لازم ہے اور رشتہ داروں اور عزیزوں کے ہاں کھانا کھانے اور اس طرح دوستوں ‘ یاروں کے ہاں بےجھجھک کھالینے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس عادت کو بحال رکھا کہ یہ تمہاری مرضی کی بات ہے کہ تم مل کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ اپنے اپنے برتن میں لے کر کھانا کھاؤ جس طرح سے تم کھانے کے عادی ہو اسلام نے اس سلسلہ میں تم پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ، پردہ کا اپنا مقام ہے اور ظاہر ہے کہ کھانا کھانے میں کن اعضا کے کھولنے کی ضرورت ہے سب کو معلوم ہے کہ وہ منہ اور ہاتھ ہی تو ہیں اور ظاہر ہے کہ کھانا کھانے میں کن اعضا کے کھولنے کی ضرورت ہے سب کو معلوم ہے کہ وہ منہ اور ہاتھ ہی تو ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں تو پہلے ہی پردہ سے مستثنی رکھے گئے ہیں پھر اس معاملہ میں سب سے زیادہ احتیاط کی جو چیز ہے وہ آنکھ ہے اور زبان ہے اور ان دونوں پر جو پابندی عائد کی گئی ہے وہ ہر حال میں موجود رہے گی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے اور خواہشات نفسانی سے پر لہجہ اختیار کرنے کی روک اپنی جگہ پر قائم ہے اور ان دونوں چیزوں کا کھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر جن گھروں میں کھلم کھلا کھانے کی اجازت دی جاتی ہے ان گھروں میں رہنے والے تو سب لوگ محرم ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کو روابط رکھنا پہلے ہی ممنوع نہیں ہے اور جو تین اوقات منع کئے گئے ہیں ان میں بھی اجازت لے کر جانے کی عام اجازت دی گئی ہے لہذا اس میں کسی قسم کی دشواری موجود نہیں بلکہ انسانی زندگی کی نہایت اہم بات اس جگہ بیان کردی گئی ہے اور ایک دوسرے کے ہاں پورے اہتمام کے ساتھ آنے جانے کو کہا گیا ہے اور مہمان اور میزبان دونوں کے لئے بہترین ادب سکھانے کی کوشش کی ہے اور پھر یہ قانون وقتی قانون نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا ہے جس میں آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
Top