Baseerat-e-Quran - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
(اے نبی ﷺ آپ اس کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجیے۔ بیشک وہ منتخب بندے اور اللہ کے رسول اور نبی تھے
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 58 مخلصاً منتخب کیا ہوا، چنا ہوا۔ نادینا ہم نے آواز دی۔ الایمن داہنی جانب۔ نجی خاموشی سے راز بتانا۔ صادق الوعد سچا وعدہ کرنے والا۔ مرضی پسندیدہ۔ رفعنا ہم نے بنلد کیا۔ انعم اس نے انعام کیا۔ کرم کیا۔ اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب تھا۔ اجتبنا ہم نے منتخب کیا۔ خروا وہ گر پڑے۔ ب کیا (بکی) روتے ہوئے۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 58 سورة مریم کی ان آیات میں حضرت موسیٰ ، حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی کچھ اہم خصوصیات کا ذکر کر کے فرمایا گیا کہ جب اہل ایمان کے سامنے اللہ کہ یہ آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور ان میں اللہ کے سامنے جھک جانے کا حکم آتا ہے تو وہ نہایت عاجزی و انکساری سے اللہ کے سامنے سجدہ میں جھک جاتے ہیں ۔ ان انبیاء کا اور اس سے پہلے حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور خاص طور پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیھم السلام کا ذکر کر کے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حق و صداقت، ہدایت و رہنمائی اور رسالت و نبوت کے منصب پر فائز کیا تھا لیکن یہ سب اللہ کے فرماں بردار اور نیک بندے ہیں اور اعلیٰ ترین مقام پر ہونے کے باوجود وہ سب کے سب اللہ کی عبادت و بندگی میں کامل مقام رکھتے تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ جب وہ اللہ کا کلام سنتے تھے تو وہ کلام اللہ سن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدہ میں گر پڑتے تھے۔ ان آیات میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبر اور حضرت یعقوب کی اولاد میں سے ہیں۔ وہ ایک منتخب نبی اور رسول ہیں۔ اللہ نے ان کو کوہ طور کی داہنی جانب سے پکارا، اپنی قربت عطا کی، آپ سے کلام فرمایا اور صاحب کتاب بنایا، توریت جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی۔ ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جو خود بھی اللہ کی طرف سے نبی تھے ان کا معاون و مددگار بنایا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں اللہ کے حکم سے فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس کی بڑائی کو چیلنج کیا کہ وہ اپنی سرکشی، تکبر اور غرور سے باز آجائے اور بنی اسرائیل پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو بند کر دے تاکہ نبی اسرائیل ملک مصر سے فلسطین عافیت کیس اتھ پہنچ جائیں۔ لیکن فرعون نے اپنے ظلم و زیادتی کا سلسلہ بند نہیں کیا بلکہ اس میں ایسی شدت آگئی تھی جس سے اہل ایمان کا اس سر زمین پر رہنا مشکل ہوگیا تھا آخر کار اللہ نے فرعون اور اس کے اس کے تمام حمایتیوں کو پانی میں غرق کردیا اور بن یاسرائیل کو ایک بہت بڑے ظالم سے نجات دلا دی۔ حضرت موسیٰ کے بعد حضرت اساعیل (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے ہیں جن کا لقب ذبیح اللہ ہے ان کے بعد حضرت ابراہیم کے گھر اٹھارہ سال بعد حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔ حضرت اسحاق کے گھر حضرت یعقوب پیدا ہوئے جن کو اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کو بارہ بیٹوں کی دولت سے مالا مال فرمایا گیا جن کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ حضرت اسماعیل کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ اس قدر عزم و ہمت اور حق و صاقت کا پیکر تھے جنہوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائیں۔ ان کے صبر و استقلال کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لگاتار تین روز تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ حضرت اساعیل کو اللہ کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں۔ جب ان کو اس بات کا یقین کامل ہوگیا کہ خواب نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حکم ہے تو انہوں نے نہایت ضبط و تحمل کے ساتھ اس بات کا ذکر حضرت اسماعیل سے کردیا۔ حضرت اسماعیل نے عرض کیا ابا جان ! آپ وہ کیجیے جس کے کرنے کا آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے۔ آپ مجھے انتہائی صابر پائیں گے۔ اس طرح انہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو منی کی طرف لے کر چلے۔ شیطان نے بہکانے کی کوششیں کیں مگر حضرت اسماعیل نے ہر مرتبہ شیطان کے جال میں پھنسنے کے بجائے اس پر کنکر برسائے اور لعنت بھیجی ۔ ادھر جب حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ نے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا بھیج کر فرمایا کہ اے ابراہیم ہم آپ کے بیٹے کو ذبح کرانا نہیں چاہتے تھے آپ کے عزم و ہمت کا امتحان لینا چاہتے تھے جس میں آپ کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کی قربانی کو قبول کرتے وہئے اس کو ایک یادگار بنا دیا اور اب قیامت تک ہر صاحب نصاب مسلمان پر دس ذی الحجہ سے بارہ ذی الحجہ کی عصر تک ایک جانور ذبح کرنے کی سنت کو جاری فرمایا تاکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی یہ قربانی کا جذبہ قیامت تک یاد رکھا جاسکے۔ حضرت اسماعیل جن کی اولاد میں سے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ قرآن کریم میں حضرت اسماعیل کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ (1) حضرت اسماعیل بہترین اخلاق کے مالک تھے (2) وہ جس سے جو وعدہ کرلیتے اس کو ہمیشہ پورا کیا کرتے تھے (3) ایسے عزم و ہمت کے پیکر تھے کہ اپنے والد حضرت ابراہیم کے کہنے سے اللہ کے حکم پر ذبح ہونے کے لئے تیار ہوگئے ۔ (4) آپ ہمیشہ اپنے گھر والوں کو نماز ڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے (5) آپ اللہ کے پسندیدہ نبی تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت اسماعیل کا ذکر کرنے کے بعد حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ارشاد ہے کہ وہ ایک نیک اور سچے انسان تھے اور اللہ کی طرف سے نبوت کے منصب پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مخصوص علوم اور فنون میں ایک خاص مقام عطا فرمایا تھا۔ ان کا دنیا میں بھی رتبہ بلند ہے اور آخرت میں بھی ان کی ایک خاص شان ہوگی۔ کہتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیانی زمانہ میں تشریف لائے اور گمراہ انسانوں کو راہ ہدایت دکھانے میں ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں۔ قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ ال سلام کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ایک تو زیر مطالعہ آیات میں اور دوسری مرتبہ سورة انبیاء میں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں علم و حکمت، علم حساب، علم کتابت یعنی قلم سے لکھنا، کپڑوں کو سینا، ماپ تول کے پیمانے اور بعض اسلحہ بنانے کے طریقے حضرت ادریس (علیہ السلام) نے سکھائے ہیں۔ بہرحال یہ تمام انبیاء کرام علیھم السلام وہ تھے جو اپنی تمام تر عظمت اور شان کے اللہ کی عبادت و بندگی اور اللہ کے بندوں کی ہدایت کیلئے دن رات کوششیں کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دین اسلام کی خدمت کرنے اور عبادت و بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ جب ان کو اللہ کے سامنے جھک جانے کا حکم ہوتا تو وہ پورے ادب و احترام سے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ سورة مریم کی اس آیت پر پہنچنے کے بعد ہر سننے والے پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ اگر اس وقت سجدہ نہ کرسکے تو جلد از جلد اس سجدے کو ادا کرے۔
Top