Aasan Quran - Al-An'aam : 120
وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
وَذَرُوْا : چھوڑ دو ظَاهِرَ الْاِثْمِ : کھلا گناہ وَبَاطِنَهٗ : اور اس کا چھپا ہوا اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے) ہیں الْاِثْمَ : گناہ سَيُجْزَوْنَ : عنقریب سزا پائیں گے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : تھے يَقْتَرِفُوْنَ : وہ برے کام کرتے
اور تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ (53) یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں، انہیں ان تمام جرائم کی جلد ہی سزا ملے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔
53: ظاہری گناہوں میں وہ گناہ بھی داخل ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرے، مثلاً جھوٹ، غیبت، دھوکا، رشوت، شراب نوشی، زنا وغیرہ، اور باطنی گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے مثلاً حسد، ریا کاری، تکبر، بغض، دوسروں کی بد خواہی وغیرہ، پہلی قسم کے گناہوں کا بیان فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت فقہاء سے حاصل کی جاتی ہے اور دوسری قسم کے گناہوں کا بیان تصوف اور احسان کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے مشائخ سے رجوع کیا جاتا ہے، تصوف کی اصل حقیقت یہی ہے کہ باطن کے ان گناہوں سے بچنے کے لئے کسی رہنما سے رجوع کیا جائے افسوس ہے کہ تصوف کی اس حقیقت کو بھلا کر بہت سے لوگوں نے بدعات و خرافات کا نام تصوف رکھ لیا ہے۔ اس حقیقت کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنی بہت سی کتابوں میں خوب واضح فرمایا ہے، آسان طریقے سے اس کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ فرمائیں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب ؒ کی کتاب“ دل کی دنیا ”۔
Top