Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور انہی میں ہیں جو اللہ کے رسول کو اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص تو بہت سننے والا ہے ، تم کہو ہاں ! وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لیے ، وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے اور وہ مومنوں کی بات پر بھی یقین رکھتا ہے اور وہ ان لوگوں کے لیے سرتار سر رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لاتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو آزار پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے عذاب ہے ، عذاب دردناک
رسول اللہ ﷺ کو ” ہُوَ اُذُنٌ 1ؕ “ کہنے والوں کی اصل مراد کیا تھی ؟ 83: جس چیز کو ہماری زبان میں ” کان کا کچا “ کہتے ہیں اس چیز کو عربی زبان میں ” ہُوَ اُذُنٌ 1ؕ “ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہ جو شخص ہر ایک کی بات سن لے اسے ” رجل اذن “ کہتے ہیں ( جوہری امام لغۃ) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو ہر ایک کی بات سنے بھی اور اسے مان بھی لے اسے ” رجل اذن “ کہا جاتا ہے۔ (قرطبی) منافقین اکثر یہ کرتے تھے کہ اپنی نجی محفلوں میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق جو جی میں آتا کہہ دیتے پھر اگر کوئی ان سے کہتا کہ تمہاری باتوں کا علم اگر رسول اللہ ﷺ کو ہوگیا تو تمہاری بڑی فضیحت ہوگی تو وہ بےجھجھک کہہ دیتے کہ میاں اس کی فکر نہ کرو وہ کانوں کے بڑے کچے ہیں اگر کسی نے ہماری کوئی بات آپ ﷺ سے کہہ بھی دی تو کیا ہوگا ؟ ہم جا کر حلفیہ بیان دے دیں گے کہ ہم نے یہ بات ہرگز نہیں کہی تو وہ فوراً ہماری بات کو مان جائیں گے۔ ان کی اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ کہہ دیں کہ : ” ہاں ! وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لئے۔ “ اگر حقیقت ظاہر کردی جائے تو تمہارا نفاق ظاہر ہوجائے اور تم روسیا ہوں کو منگ چھپانے کی جگہ ہی ملے وہ تو محض اس لئے گہرائی میں نہیں جاتا کہ تم نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے اور ایمان والوں کی بات وہ فوراً سچ مان جاتا ہے اس لئے کہ جھوٹ ایمان کے منافی ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کو اللہ پر پختہ یقین ہے کہ جب اللہ میرا ساتھی اور نگہبان ہے تو مجھے اس گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے کہ کس نے اسلام کے متعلق یا خود پیغمبر اسلام کے متعلق کیا کہا ہے ؟ وہ تو سراسر رحمت و شفقت ہے اس لئے جن لوگوں نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے اور اسلام کو مان چکے ہیں وہ اندر سے کیا کچھ ہوں ان کی بات کا وہ یقین کرتا ہے اور اہل ایمان کی باتوں کا اس کو اعتبار ہے۔ منافقین کے اس تکیہ کلام کا جواب الٰہی : 82: منافقین کے اس جملہ ” ہُوَ اُذُنٌ 1ؕ “ کا جواب ان کو یہ دیا گیا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو سراپا کان سمجھتے ہو تو اس کا وہ پہلو جو تمہارے ذہن و دماغ میں ہے بالکل صحیح نہیں۔ وہ سراپا گوش محض تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ ان کے کان ہر وقت اس تمنا کے لئے کھلے ہیں کہ ان میں تمہاری اچھی باتوں ، اچھے کاموں ، اچھے ارادوں کی خبریں پڑیں اور ان سے وہ مسرور ہوں وہ تمہاری بری خبریں اور بری سرگوشیاں سننے کے لئے کان نہیں لگائے ہوئے کہ کوئی آئے اور تمہاری کسی بری حرکت کی خبر سنائے اور وہ اسے تمہاری خبر لینے کے لئے اپنے حافظہ میں محفوظظ کرلیں۔ وہ تمہارے لئے اتنے شفیق ہیں جتنا کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے لئے ہو سکتا ہے اس طرح بھی امت کے لئے شفیق و رحیم ہے۔ وہ سارے لوگوں کے لئے جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے سراسر رحمت ہی رحمت ہیں بلکہ وہ انسانوں کے علاوہ حیوانوں کے لئے بھی دل میں نعم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچنے سے ان کو دکھ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ایذا دینے والے مستحق عذاب الٰہی ہیں : 85: رہی یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ کو ایذا دینا کیا ہے ؟ تو سن لو کہ وہ نافرمانی ہے کیونکہ ہر کفر و شرک کی بات اور انسانیت کے خلاف رویہ رسول اللہ ﷺ کی ایذا کا باعث ہے کہ اس سے نبی رحمت ﷺ کا دل دکھتا ہے اور سب سے بڑی اذیت انسان کے لئے اس کے دل کا دکھنا ہی ہے پھر یہ بھی کہ رسول اللہ ﷺ کی اذیت براہ راست اللہ کی اذیت ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی اذیت اللہ کی اذیت ہوئی لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر طعن براہ راست اللہ پر طعن ہوا اور سول اللہ ﷺ کی مخالفت اللہ کی مخالفت اس لئے تم خود غور کرلو کہ ان لوگوں کے لئے جو رسول اللہ ﷺ کی اذیت کا باعث ہوئے اللہ کا عذاب ہوگا یا نہیں ؟ قرآن کریم کا فیصلہ تو یہی ہے کہ ” انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے لئے عذاب ہے ، عذاب دردناک۔ “ جس سے وہ یقیناً بچ نہیں سکیں گے۔
Top