Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
نکاح سے پہلے طلاق کا بیان قول باری ہے : (یایھا الذین امنوا اذ نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن وسرحوھن سراجا جمیلا۔ اے ایمان لانے والو ! تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تمہارے لئے ان کے بارے میں کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرنے لگو، انہیں کچھ مال دے دو اور خوبی کے ساتھ رخصت کردو) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تزویج کی شرط پر طلاق واقع کرنے کی صحت پر آیا یہ دلالت کرتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے۔ اگر میں کسی عورت سے نکاح کرلو تو اس پر طلاق ہے۔ “ کچھ حضرات کا قول ہے آیت اس قول کے الغاء اور اس کے حکم کے سقوط کی مقتضی ہے کیونکہ یہ نکاح کے بعد طلاق کی صحت کی موجب ہے جبکہ زیر بحث شخص نکاح سے پہلے ہی طلاق دے رہا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قائل کے قول کی صحت اور نکاح کے وجود کی صورت میں اس کے حکم کے لزوم پر آیت کی دلالت واضح ہے کیونکہ آیت نے نکاح کے بعد طلاق کے وقوع کی صحت کا حکم لگادیا ہے۔ اب ایک شخص اگر کسی اجنبی عورت سے یہ کہتا ہے کہ ” جب تجھ سے میرا نکاح ہوجائے گا تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ اس لئے یہ شخص نکاح کے بعد طلاق دے رہا ہے۔ جس کی بنا پر ظاہر آیت کی رو سے اس کی طلاق کا واقع ہوجانا اور اس کے الفاظ کے حکم کا ثابت ہوجانا واجب ہوگیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہی قول درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قول کا قائل یا تو قول کی حالت میں طلاق دینے والا ہوگا یا نسبت واضافت اور وجود شرط کی حالت میں وہ ایسا کرنے والا ہوگا۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کے کہ ” جب تو مجھ سے بائن ہوکر میرے لئے اجنبی بن جائے گی تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ وہ اضافت کی حالت میں طلاق دینے والا ہوگا، قول کی حالت میں طلاق دینے والا نہیں ہوگا۔ اور اس کی حیثیت اس شوہر جیسی ہوگی جو پہلے اپنی بیوی کو بائن کردے اور پھر اس سے کہے ” تجھے طلاق ہے۔ “ اس طرح اس کے الفاظ کا حکم ساقط ہوگیا اور نکاح کے ہوتے ہوئے اس کے قول کی حالت کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگیا کہ اضافت کی حالت کا اعتبار ہوتا ہے، عقد یعنی قول کی حالت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لئے اجنبی عورت کو یہ کہنے والا کہ جب میں تجھ سے نکاح کروں گا تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ ملک کے بعد اسے طلاق دینے والا ہے۔ اور آیت اس شخص کی طلاق کے وقوع کی مقتضی ہے جو ملک کے بعد طلاق دے رہا ہو۔ طلاق قبل ازنکاح میں اختلاف ائمہ اس مسئلے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہے جس عورت سے بھی نکاح کروں اسے طلاق ہے اور جس مملوک کا میں مالک بن جائوں وہ آزاد ہے۔ تو جس عورت سے بھی اس کا نکاح ہوگا اسے طلاق ہوجائے گی اور جس مملوک کا بھی وہ مالک ہوگا اسے آزادی مل جائے گی۔ ان حضرات نے اس میں تعمیم اور تخصیص کرنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے اگر کہنے والے نے اس میں تعمیم کی ہو تو کوئی چیز واقع نہیں ہوگی۔ البتہ اگر اس نے بعینہٖ کسی چیز یا جماعت کی ایک مدت تک تخصیص کردی ہو تو وہ واقع ہوجائے گی۔ امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے یہ بھی مذکور ہے کہ اگر کسی نے طلاق کے لئے ایسی مدت مقرر کردی ہو جس کے متعلق سب کو یہ معلوم ہو کہ وہ اس مدت تک پہنچ نہیں سکتا تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی مثلاً کوئی شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں فلاں سال تک کسی عورت سے نکاح کرلو تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ پھر امام مالک نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” ہر وہ غلام جسے میں خریدلوں وہ آزاد ہے۔ “ تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے طلاق ہوجائے گی تو اس پر اس کا یہ قول لازم ہوجائے گا۔ عثمان البتی کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی نے اس شخص کے متعلق کہا ہے جو اپنی بیوی سے یہ کہے کہ ” ہر وہ لونڈی جس کے ساتھ تمہارے ہوتے ہوئے ہم بستری کروں وہ آزاد ہوجائے گی۔ “ پھر وہ بیوی کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے ہم بستری کرلے تو وہ لونڈی آزاد ہوجائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کوئی یہ کہے ” جس مملوک کا میں مالک ہوجائوں وہ آزاد ہوجائے گا۔ “ تو اس کا یہ قول بےمعنی ہوگا۔ اگر وہ یہ کہے ” ہر وہ مملوک جس میں خرید لوں یا وارث بن جائوں۔ “ یا سای طرح کی کوئی اور بات کہے گا تو اس جہت سے ملکیت حاصل ہونے پر غلام آزاد ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اس نے تخصیص کردی تھی۔ لیکن اگر وہ یہ کہے۔ ہر وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ تو اس صورت میں کچھ نہیں ہوگا۔ اگر وہ یہ کہے ” فلاں خاندان یافلاں گھرانے یا اہل کوفہ کی جس عورت سے میں نکاح کرلوں گا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ تو اس صورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ حسن کا قول ہے کہ جب سے کوفہ کا شہر آباد ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہمیں کسی اہل علم کے متعلق علم نہیں کہ اس نے اس کے سوا اور کوئی فتویٰ دیا ہو۔ لیث کا قول ہے کہ تخصیص کی صورت میں طلاق اور عتاق کے اندر اس پر اس کی کہی ہوئی بات لازم ہوجائے گی یعنی طلاق واقع ہوجائے گی اور غلام یا لونڈی کو آزادی مل جائے گی۔ امام شافعی کا قول ہے ک اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی نہ تو تخصیص کی صورت میں اور نہ ہی تعمیم کی صورت میں۔ اس مسئلے میں سلف کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ یا سین زیات سے مروی ہے کہ انہوں نے عطاء خراسانی سے اور انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس شخص کے متعلق فرمایا تھا جس نے یہ کہا تھا۔ ” جس عورت سے بھی میرا نکاح ہوگا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ کہ جس طرح اس نے کہا ہے اس کے مطابق ہوگا۔ امام مالک نے سعید بن عمرو بن سلیم الزوتی سے رویت کی ہے کہ انہوں نے قاسم بن محمد سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا تھا جو ایک عورت کو اس کے ساتھ نکاح ہونے سے قبل ہی طلاق دے دیتا ہے۔ قاسم نے اس کے جواب میں کہا تھا ک ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں تو یہ میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہوگی۔ حضرت عمر ؓ نے اس شخص کو اس عورت سے نکاح کرلینے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی یہ فرمادیا تھا کہ جب تک ظہار کا کفارہ ادا نہیں کرے گا اس وقت تک اس سے قربت نہیں کرے گا۔ سفیان ثوری نے محمد بن قیس سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے اسود سے روایت کی ہے کہ انہوں نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے طلاق “ پھر بھول کر اس سے نکاح کرلیا اور یہ معاملہ حضرت ابن مسعود ؓ کے سامنے پیش کردیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس پر طلاق لازم کردی۔ ابراہیم نخعی، شعبی، مجاہد اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بھی یہی قول ہے ۔ شعبی نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاص عورت کا نام لے کر یہ بات کہے یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں خاندان کی عورت سے شادی کرلوں تو اس پر طلاق ہے تو اس صورت میں وہی ہوگا جو اس نے کہا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے : ” جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اسے طلاق ہے۔ “ تو اس صورت میں یہ بےمعنی بات ہوگی۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے۔” میں فلاں عورت سے اگر نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ “ تو اس کی یہ بات بےمعنی ہوگی۔ قاسم بن سالم اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اس کے لئے ایسا کہنا جائز ہے۔ یعنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص درج بالا فقرہ کہے تو اس کی یہ بات بےمعنی ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ ، حضرت جابر ؓ اور دوسرے حضرات سے مروی ہے کہ نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں۔ تاہم اس فقرے میں ہمارے اصحاب کے قول کی مخالفت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں اگر کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ “ وہ دراصل نکاح کے بعد طلاق دینے والا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے آیت کی جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ ہمارے قول کی صحت اور مخالف پر حجت کے قیام نیز مسلک کی تصحیح کے لئے کافی ہے۔ اس پر قول باری (یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود۔ اے ایمان لانے والو ! عقود یعنی بندشوں کی پوری پابندی کرو) ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ ہر عاقد پر اس کے عقد کا موجب ومقتضیٰ لازم ہوجاتا ہے۔ جب یہ قائل اپنی ذات پر نکاح کے بعد طلاق واقع کرنے کی بندش باندھ رہا ہے تو اس سے ضرورت ہوگیا کہ اس بندش اور عقد کا حکم اس پر لازم ہوجائے۔ اس پر حضور ﷺ کا ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا (المسلمون عند شروطھم۔ مسلمان اپنی شرطوں کے پاس ہوتے ہیں) یعنی اپنی شرطیں پوری کرتے ہیں۔ اس ارشاد نے یہ بات واجب کردی کہ جو شخص اپنے اوپر کوئی شرط عائد کرے گا شرط کے وجود کے ساتھ ہی اس پر اس کا حکم لازم کردیا جائے گا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر صرف ملک کے اندر درست ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ جو شخص یہ نذر مانتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہزار درہم عطا کردے تو میں اس میں سے سودرہم اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں گا، وہ اپنی ملکیت کے اندر نذر ماننے والا شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اس رقم کی اضافت اور نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے اگرچہ فی الحال وہ اس رقم کا مالک نہیں ہے۔ یہی صورت حال طلاق اور عتاق کی ہے کہ اگر ان کی اضافت اپنی ملک کی طرف کرلے گا تو اسے ملک کے اندر طلاق دینے والا اور آزاد کرنے والا شمار کیا جائے گا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی سے یہ کہے کہ ” اگر تمہارے بطن سے کوئی بچہ پیدا ہوا وہ آزاد ہوگا۔ “ اس کے بعد لونڈی کو حمل ٹھہر جائے اور بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ آزاد ہوجائے گا حالانکہ قول کی حالت میں آقا اس بچے کا مالک نہیں تھا۔ آزاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی اضافت ونسبت اس ماں کی طرف تھی جس کا وہ مالک تھا۔ اسی طرح اگر کوئی عشق کو اپنی ملکیت کی طرف منسوب کرے اسے اپنی ملکیت کے اندر آزاد کرنے والا شمار کیا جائے گا۔ اگرچہ فی الحال اس پر اس کی ملکیت موجود نہیں ہے۔ نیز اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے ” اگر تم گھر میں داخل ہوجائو تو تمہیں طلاق “ پھر نکاح کے ہوتے ہوئے اگر وہ گھر میں داخل ہوجائے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس کے اس فقرے کی حیثیت وہی ہے جو نکاح کی حالت میں اس کے اس فقرے کی ہے کہ ” تمہیں طلاق ہے۔ “ اگر یہی شخص اپنی بیوی کو پہلے بائن کردیتا اور پھر وہ گھر میں داخل ہوجاتی تو اس کے درج بالا فقرے کی حیثیت وہی ہوتی جو بینونت کی حالت میں اس کے اس یقرے کی ہوتی۔” تمہیں طلاق ہے۔ “ یعنی اس صورت میں اس پر طلاق واقع نہ ہوتی۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قسم کھانے والا شخص دراصل جواب قسم کے وقت جواب قسم کے الفاظ زبان پر لانے والا شمار ہوتا ہے۔ اس لئے جو شخص یہ کہے ” ہر وہ عورت جس سے میرا نکاح ہوا سے طلاق ہے۔ “ اس کے بعد پھر وہ کسی عورت سے نکاح کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے اس فقرے کو وہی حیثیت دی جائے جو کسی عورت سے نکاح کرے اس کے اس فقرے کی ہے کہ ” تمہیں طلاق ہے۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا بات اگر درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آتا کہ ایک شخص اگر حلف اٹھانے کے بعد دیوانہ ہوجاتا اور پھر اس کے قسم کی شرط وجود میں آجاتی تو درج بالا وضاحت کی روشنی میں اسے حانث قرار نہ دیا جاتا کیونکہ اس نے دراصل گویا جنون کی حالت کے وقت جواب قسم کے الفاظ اپنی زبان پر لائے تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے کیونکہ مجنون کا کوئی قول نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا بولنا اور خاموش رہنا دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے ۔ چونکہ اس کا قول درست نہیں ہوتا اس لئے جنون کی صورت میں ابتداء وہی سے اس کا وقوع پذیر ہوجانا درست نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ جنون سے پہلے اس کا قول درست اور قابل تسلیم ہوتا ہے اس لئے صحت کی حالت میں اس کے کہے ہوئے قول کا حکم جنون کی حالت میں بھی اس پر لازم ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ مجنون انسان اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا غلام آزاد کردے تو بعض دفعہ اس کی یہ طلاق اور اس کا یہ عتاق درست ہوجاتا ہے۔ مثلاً اگر یہی دیوانہ مقطوع الذکر یا نامرد ہوتا اور اسے اس کی بیوی سے علیحدہ کردیا جاتا تو یہ علیحدگی طلاق ہوتی۔ اسی طرح اگر یہ اپنے باپ کا وراثت کی صورت میں مالک بن جاتا تو باپ اس پر آزاد ہوجاتا۔ جس طرح نائم یعنی نیند میں پڑے ہوئے انسان کی حالت ہوتی ہے کہ طلاق واقع کرنے کی ابتداء تو اس سے درست نہیں ہوتی لیکن کسی سبب کی بنا پر اس کا حکم اسے لازم ہوجاتا ہے۔ مثلاً اس نے کسی کو یہ سپرداری دی ہو کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے دے یا اس کا غلام آزاد کردے۔ اب اگر اس وکیل نے موکل کی نیند کی حالت میں اس کی بیوی کو طلاق دے دی ہو یا اس کا غلام آزاد کردیا ہو تو طلاق اور عتاق کا یہ حکم اس پر لازم ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی ؓ ، حضرت معاذ بن جبل ؓ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے (لا طلاق قبل النکاح۔ نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ا سروایت کی اسانید فن روایت کے لحاظ سے مضطرب شمار ہوتی ہیں اس لئے روایت کی جہت سے یہ درست نہیں ہے۔ اگر اسے روایت کی جہت سے درست مان بھی لیا جائے تو بھی اختلافی نکتے پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہورہی ہے۔ اس لئے کہ ہم نے جو صورت بیان کی ہے اس میں ایک شخص نکاح کے بعد طلاق دینے والا ہوتا ہے اس لئے یہ بات اس روایت کی خلاف نہیں ہے۔ نیز آپ نے اس ارشاد کے ذریعے نکاح سے پہلے طلاق واقع کرنے کی نفی کردی ہے لیکن عقد کی نفی نہیں کی۔ جب آپ کے ارشاد (لا طلاق قبل النکاح) کا حقیقی مفہوم ایقاع طلاق کی نفی ہے جبکہ طلاق پر عقد طلاق شمار نہیں ہوتا تو وہ وجوہ سے حدیث کے الفاظ اس صورت کو شامل نہیں ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ عقد پر اس کا اطلاق مجازاً ہوگا۔ حقیقت کے طور پر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جو شخص طلاق پر کسی قسم کا انعقاد کرتا ہے۔ اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا کہ اس نے طلاق دے دی ہے جب تک وہ واقع نہ ہوجائے پھر لفظ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ جب تک دلالت قائم نہ ہوجائے اس وقت اسے اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ دلالت قائم ہونے پر مجازی معنی لئے جائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ لفظ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہے اس لئے اس سے مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ایک ہی لفظ سے حقیقی اور مجازی دو معنی مراد لینا جائز نہیں ہوتا۔ زہری سے حضور ﷺ کے ارشاد (لاطلاق قبل نکاح) کی وضاحت ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ کسی شخص کے سامنے کسی عورت کا تذکرہ کرکے اس سے اس کے ساتھ نکاح کرلینے کے لئے کہا جائے ۔ وہ شخص یہ سن کر کہے کہ ” اس عورت کو یقینا طلاق ہے۔ “ اس کی یہ بات ایک بےمعنی سی بات ہوگی۔ البتہ جو شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے یقینا طلاق ہے۔ “ وہ اسے نکاح کرنے پر طلاق دے دے گا۔ غلام آزاد کرنے کی بھی یہی صورت ہے۔ ایک قول کے مطابق یہاں عقد مراد ہے۔ وہ یہ کہ کوئی شخص اجنبی عورت سے کہے۔” اگر تم گھر میں داخل ہوگی تو تمہیں طلاق ہے۔ “ اس کے بعد پھر وہ اس عورت سے نکاح کرلے اور نکاح کے بعد عورت گھر میں داخل ہوجائے تو عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ نکاح کی حالت میں وہ گھر میں داخل ہوئی ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں تخصیص کرنے والے اور تعمیم کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے کہ تخصیص کی صورت میں وہ ملک کے اندر طلاق دینے والا ہوگا۔ تعمیم کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا جب تعمیم کی صورت میں وہ ملک کے اندر طلاق دینے والا نہیں ہوتا تو تخصیص کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ایک شخص تعمیم کرتا ہے تو اپنی ذات پر تمام عورتوں کو حرام کردیتا ہے جس طرح ظہار کرنے والا جب اپنی بیوی کو مبہم صورت میں حرام کرلیتا ہے تو اس کا حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے اول تو یہ کہ ظہار کرنے والا ایک متعین عورت یعنی اپنی بیوی کی تحریم کا ارادہ کرتا ہے اور ہمارے مخالف کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص تعیین کی صورت میں تخصیص کرلے تو اس کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ جب وہ تعمیم کرتا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس لئے ہمارے مخالف کے اصول کے مطابق اس پر طلاق واقع نہ ہونا واجب ہوگا۔ خواہ اس نے تخصیص کیوں نہ کرلی ہو جس طرح ظہار کرنے والا اگر مبہم صورت میں تحریم کرے تو عورت اس پر حرام نہیں ہوتی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اس کے ظہار نیز اس کی تحریم کے حکم کو باطل نہیں کیا بلکہ اس کے قول کے ساتھ اس پر اس عورت کو حرام کردیا ہے اور اس پر اس کے ظہار کا حکم ثابت کردیا ہے۔ نیز جو شخص اس بات کی قسم کھاتا ہے کہ وہ جس عورت سے بھی نکاح کرے گا اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ وہ اس قسم کے ذریعے اپنی ذات پر عورتوں کو حرام نہیں کرتا کیونکہ وہ اس قسم کے ذریعے نکاح کی تحریم کرو واجب نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے صرف نکاح ہوجانے اور ملک بضع کے حصول کے بعد طلاق واجب کی ہے۔ نیز جب وہ کہتا ہے ” ہر وہ عورت جس میں نکاح کروں گا اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ “ ایسے شخص پر جب ہم اس طلاق کو لازم کردیں گے جس کا اس نے قول کیا تھا تو اس صورت میں عورت کی تحریم مبہم نہیں ہوگی بلکہ اسے ایک طلاق ہوجائے گی اور اس شخص کے لئے اس کے بعد بھی دوسری مرتبہ اس عورت سے نکاح کرلینا جائز ہوگا اور کوئی طلاق وغیرہ واقع نہیں ہوگی۔ ہمارے بیان کردہ یہ تمام وجوہ معترض کی بیخبر ی کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ معترض کے درج بالا اعتراض کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ۔ اگر میں اس سے نکاح کرلوں تو اس پر طلاق ہے، اور اگر میں اسے خرید لوں تو وہ آزاد ہے۔ تو اس صورت میں کوئی چیز واقع نہیں ہوگی بلکہ طلاق اور آزادی اس صورت میں واقع ہوگی جب وہ عورت سے یہ کہے ” جب تمہارے ساتھ میرا دوست طریقے سے نکاح ہوجائے تو پھر اس کے بعد تمہیں طلاق ہے۔ یا یوں کہے ” جب تمہارے ساتھ میرا درست طریقے سے نکاح ہوجائے تو پھر اس کے بعد تمہیں طلاق ہے۔ “ یا یوں کہے ” جب میں خریداری کے بعد تمہارا مالک بن جائوں تو تم آزاد ہوجائو گے۔ “ ان حضرات نے اپنے اس قول کے لئے استدلال کی یہ راہ اختیار کی ہے کہ جب نکاح اور خریداری کو طلاق اور عتاق کے لئے شرط قرار دیا جاتا ہے تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عقد کے ملک بضع اور ملک بضع اور ملک رقبہ کا حصول ہوتا ہے۔ ل لیکن زیر بحث حالت میں ملک کے حصول کے ساتھ ہی عتاق اور طلاق بھی واقع ہورہی ہے یعنی ملک ، طلاق اور عتاق ایک ساتھ ہی وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ اس لئے ایسی صورت میں نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ ہی عتاق۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس ملک کے اندر وقوع پذیر ہوتی ہیں جو اس سے پہلے حاصل ہوچکی ہو۔ ابوبکر حبصاص کے نزدیک یہ ایک بےمعنی استدلال ہے کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ” جب میں تم سے نکاح کرلوں گا اور تمہیں طلاق ہوجائے گی۔ “ یا ” جب تمہیں خریدلوں گا تو تم آزاد ہوجائو گے۔ “ اس کے کلام کے مضمون سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس نے نکاح ہوجانے کے بعدنیز ملکیت حاصل ہونے کے بعد طلاق واقع کرنے یا آزادی دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اس لئے اس کی حیثیت اس شخص کے قول کی طرح ہوگی جو یہ کہے ” جب میں نکاح کی بنا پر تمہارا مالک ہوجائوں گا تو تمہیں طلاق ہوجائے گی۔ “ یا ” جب میں خریداری کی بنا پر تمہارا مالک ہوجائوں گا تو تمہیں آزادی مل جائے گی۔ “ اس لئے جب فقرے میں نکاح یا خریداری کی بنا پر ملکیت کا مفہوم موجود ہے تو اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے زبان سے یہ بات کہہ دی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا بات اگر درست ہوتی تو پھر لازم ہوتا کہ اگر کوئی یہ کہتا۔ میں اگر کوئی غلام خریدوں تو میری بیوی کو طلاق۔ “ یہ کہہ کر وہ کسی اور شخص کے لئے کسی غلام کی خریداری کرلیتا تو اس صورت میں اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوتی۔ کیونکہ اس کے اس فقرے کے مضمون میں ملکیت کا کا مفہوم موجود ہے گویا اس نے یہ کہا ۔” اگر خریداری کی بنا پر میں غلام کا مالک ہوجائوں تو میری بیوی کو طلاق۔ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ فقرے کے الفاظ ان صورتوں میں ملکیت کے مفہوم کو متضمن ہوتے ہیں جن میں وہ طلاق واقع کررہا ہو یا آزادی دے رہا ہو۔ ان دونوں صورتوں کے علاوہ باقی صورتوں میں فقرے کو الفاظ کے حکم پر محمول کیا جائے گا۔ اور اس میں ملکیت کے وقوع یا عدم وقوع کے معنی کی تضمین نہیں کی جائے گی۔ قول باری ہے (من قبل ان تمستوھن) ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا ہے کہ سیس یعنی ہاتھ لگانے سے مراد خلوت صحیحہ ہے اور عدت کی نفی کا تعلق خلوت اور جماع دونوں کی نفی کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں بحث کے اعادے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ قول باری (ومتعوھن) سے اگر وہ بیوی مراد ہے جس کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو آیت کا حکم وجوب پر محمول ہوگا جس طرح یہ قول باری ہے (اوتفرضوا لھن فریضۃ ومتعوھن) اگر وہ بیوی مراد ہے جس کے ساتھ دخول ہوچکا ہو تو آیت کا حکم استجباب پر محمول ہوگا وجوب پر نہیں۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سیآیت (فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا) تاآخر آیت میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جس کا نکاح ہوگیا ہو لیکن اس کے ساتھ نہ دخول ہوا ہو، نہ ہی اس کے لئے کوئی مہر مقرر کیا گیا ہو۔ ایسی عورت کونہ تو کوئی مہر ملے گا اور نہ ہی اس پر عدت واجب ہوگی۔ قتادہ نے سعید سے روایت کی ہے۔ سورة بقرہ میں قول باری (فنصف ما فوضتم) کی بنا پر یہ آیت منسوخ ہے۔ قول باری ہے (وسروحوھن) دخول سے پہلے طلاق کی ذکر کے بعداس حکم کا ذکر ہوا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر اسے اپنے گھر سے یا اپنے قبضے سے اسے رخصت کردے کیونکہ طلاق کے ذکر کے بعد اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس لئے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ تشریح یعنی گھر سے رخصت کردینا طلاق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ذریعے یہ بیان ہوا ہے کہ اب اس پر مرد کا کوئی اختیار نہیں رہا اور اب اس پر یہ لازم ہے اپنے قبضے اور سرپرستی سے باہر کردے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لئے جن عورتوں کو حلال کردیا ان کا بیان قول باری ہے (یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک اللاتی اتیت اجورھن اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کے لئے آپ کی (یہ) بیویاں حلال کی ہیں جن کو آپان کے مہر دے چکے ہیں) تا آخر آیت ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت نکاح کی ان صورتوں پر مشتمل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لئے مباح کردیا تھا۔ ایک صورت وہ ہے جس کا ذکر آیت کے درج بالا حصے میں ہوا ہے یعنی ازواج مطہرات جن کے ساتھ متعین مہر پر نکاح ہوا تھا اور آپ نے ان کے مہر انہیں ادا کردیے تھے۔ دوسری صورت ملک یمین کی تھی جس کا ذکر قول باری (وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک اور وہ عورتیں بھی جو آپ کی ملک میں ہیں جنہیں اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوایا ہے) میں ہوا ہے۔ مثلاً ریحانہ ، صفیہ اور جویریہ۔ آپ نے ان میں سے دو کو آزاد کرکے ان سے عقد کرلیا تھا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہیں اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوایا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کا ذکر کیا جو آپ کے اقارب میں سے تھیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر حلال کردیا تھا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (وبنات عمک وبنات عما تک ونبات خالک وبنات خلاتک التی ھاجرن معک اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی) پھر اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کا ذکر کیا جنہیں مہر کے بغیر آپ کے لئے حلال کردیا گیا تھا۔ چناچہ ارشاد ہوا (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی اور اس مسلمان عورت کو بھی جو (بلا عوض) اپنے کو نبی کے حوالے کردے) اور اس کے ساتھ ہی یہ بتادیا کہ یہ صورت صرف حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے، امت کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن خواتین کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان کے لحاظ سے آپ ﷺ کی اور آپ ﷺ کی امت کی حیثیت یکساں ہے۔ قول باری (التی ھاجون معک) کے سلسلے میں امام ابویوسف کا قول ہے کہ اس میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ جن خواتین نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی وہ آپ پر حرام تھیں۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابویوسف اس بات کے قائل نہیں تھے جس چیز کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کردیا ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے ماسوا چیزوں کا حکم اس چیز کے حکم کے برعکس ہے۔ دائود بن ابی ہند نے محمد بن ابی موسیٰ سے روایت کی ہے، انہوں نے زیاد سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب سے زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی سے یہ پوچھا تھا کہ آپ کے خیال میں اگر حضور ﷺ کی تمام بیویاں ہلاک ہوجاتیں تو کیا آپ کو نکاح کرنے کی اجازت ہوتی ؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے جواب دیا : ” اس میں کیا رکاوٹ پیش آتی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مختلف قسم کی خواتین کو حلال کردیا تھا اس لئے آپ ان میں سے جن کے ساتھ چاہتے نکاح کرلیتے۔ “ پھر حضرت ابی بن کعب ؓ نے یہ آیت تلاوت کی (یایھا النبی انا احللنا لک) تاآخر آیت یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جن خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کی اباحت کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اس سے آپ پر دوسری خواتین کے ساتھ نکاح کی ممانعت لازم نہیں آئی تھی۔ کیونکہ حضرت ابی نے یہ بتایا تھا کہ اگر حضور ﷺ کی تمام ازواج مطہرات فوت ہوجاتیں تو آپ کے لئے دوسری خواتین سے نکاح کرنا جائز ہوتا۔ حضرت ام ہانی ؓ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ اسرائیل نے سدی سے۔ انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ام ہانی ؓ سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ میں نے معذرت پیش کردی اس پر اللہ تعالیٰ نے (یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک) تا (ھاجرن معک) نازل فرمائی۔ میں آپ پر حلال نہیں تھی کیونکہ میں نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی۔ میں ان لوگوں کے ساتھ تھی جنہیں فتح مکہ کے دن آزاد کردیا گیا تھا۔ جنہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔ اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت ام ہانی ؓ کا مسلک یہ تھا کہ حضور ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے والی خواتین کی تخصیص سے ان خواتین کی ممانعت ہوگئی تھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی۔ بہرحال یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ام ہانی ؓ کو اس ممانعت کا علم درج بالا آیت کی دلالت کے بغیر کسی اور ذریعے سے ہوگیا تھا۔ اس آیت میں میں تو صرف ان خواتین کی اباحت کا ذکر ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ آیت نے ہجرت نہ کرنے والی خواتین کی اباحت یا ممانعت کے مسئلے سے تعرض نہیں کیا ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ کو اس آیت کے سوا کسی اور ذریعے سے ان کا علم ہوا تھا۔ قول باری (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی) لفظ ہبہ کے ساتھ حضور ﷺ کے ساتھ عقد نکاح کی اباحت پر نص ہے۔ لفظ ہبہ کے ساتھ آپ ﷺ کے سوا دوسروں کے ساتھ عقد نکاح کے جواز کے مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح درست ہے۔ عورت کو مقررہ مہر ملے گا اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اسے مہر مثل ملے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کسی کے لئے کوئی عورت ہبہ کے لفظ کے ساتھ حلال نہیں ہوگی۔ اگر کوئی عورت نکاح کی خاطر کسی کے لئے اپنے آپ کو ہبہ نہ کرے بلکہ اس لئے ہبہ کردے کہ مرد اس کی حفاظت کرے یا اس کی ذمہ داری سنبھال لے تو اس صورت میں امام مالک کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ نکاح درست نہیں ہوتا۔ اس آیت کے حکم کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح حضور ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ قول باری ہے (خالصۃ لک من دون المومنین) ۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح کے مسئلے میں حضور ﷺ اور آپ کی امت یکساں درجے پر ہیں۔ حضور ﷺ کی خصوصیت یہ تھی کہ بدل کے بغیر بضع کی باحت کا آپ کے لئے جواز تھا۔ رہی بات مجاہد، سعید بن المسیب اور عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے۔ یہی بات درست ہے اس لئے کہ آیت اور اصول کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ اس پر آیت کی کئی وجوہ سے دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ قول باری ہے (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی ان یستعکحھا خالصۃ لک من دون المومنین، اور اس مسلمان عورت کو بھی جو (بلا عوض) اپنے آپ کو نبی کے حوالے کردے بشرطیکہ نبی بھی اسے نکاح میں لانا چاہیں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہے نہ کہ اور مومنین کے لئے) جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ یہ حکم آپ کے لئے مخصوص تھا دوسرے اہل ایمان اس میں شامل نہیں تھے اور اس کے ساتھ ہی ہبہ کی اضافت عورت کی طرف کردی تو اس سے اس بات پر دلالت حاصل ہوئی کہ حضور ﷺ کے ساتھ جس بات کی تخصیص تھی وہ بدل کے بغیر بضع کی اباحت کی بات تھی کیونکہ اگر لفظ ہبہ مراد ہوتا تو اس میں آپ کے ساتھ دوسرے افراد شریک نہ ہوسکتے اس لئے کہ جو چیز حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھی اس میں دوسروں کی شرکت جائز نہیں تھی۔ اس طرح شرکت میں مساوات کی وجہ سے خصوصیت کا مفہوم ختم ہوجاتا اور تخصیص جاتی رہتی جب اللہ تعالیٰ نے ہبہ کے لفظ کی نسبت عورت کی طرف کردی اور فرمایا (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی) اور لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح جائز کردیا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ تخصیص لفظ کے اندر واقع نہیں ہوئی بلکہ صرف مہر کے اندر واقع ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بدل کے بغیر تملیک بضع کے جواز میں حضور ﷺ کے ساتھ دوسروں کی شرکت ہے لیکن اس کے باوجود یہ چیز حضور ﷺ کے ساتھ اس حکم کی تخصیص کے لئے مانع نہیں بنی اس لئے لفظ میں بھی یہی بات ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ حکم حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ تخصیص صرف اس بات میں کی گئی تھی جو آپ کے حق میں تھی۔ لیکن عقد کے اندر عورت کی طرف سے مہر کا اسقاط اس کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔ اس چیز نے اس سے اس بات سے خارج نہیں کیا کہ جو چیز حضور ﷺ کے ساتھ مخصوص تھی اس میں عورت یا کوئی اور آپ کے ساتھ شریک نہ ہو۔ آیت کی دلالت کی دوسری وجہ یہ قول باری ہے (ان ارادا النبی ان یسنکحھا) اللہ تعالیٰ نے ہبہ کے ساتھ عقد کو نکاح کا نام دیا اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ ہر ایک کے لئے ہبہ کے لفظ کے ساتھ عقد نکاح جائز ہوجائے۔ کیونکہ قول باری ہے (فانکحوا ماطاب لکم من النسآء جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو) نیز جب عقد کی صورت حضور ﷺ کے لئے جائز ہوگئی اور دوسری طرف ہمیں آپ کے اتباع کا بھی حکم دیا گیا ہے تو اس سے ہمارے لئے آپ کی طرح عمل کرنا واجب ہوگیا۔ الا یہ کہ کوئی ایسی دلالت ہوجائے جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ لفظی طور پر یہ فعل حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا امت اس میں شریک نہیں۔ اسقاط مہر کی جہت سے آیت میں مذکور تخصیص حضور ﷺ کو حاصل ہوگئی تھی اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ یہ تخصیص صرف اسقاط مہر کے حکم تک محدود رہے اور باقی ماندہ باتوں کو اس پر محمول نہ کیا جائے الا یہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے جس سے یہ پتہ لگ جائے کہ ان میں سے فلاں بات آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضور ﷺ کی خصوصیت مہر کے ساتھ تھی۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبداللہ بن احمد بن جنبل کے حوالے سے سنائی گئی ہے۔ انہیں ان کے والد نے یہ روایت سنائی ہے، انہیں محمد بن بشر نے، انہیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ وہ ان خواتین کو عار دلایا کرتی تھیں جنہوں نے اپنی ذات حضور ﷺ کو ہبہ کردی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کہا کرتی تھیں کہ انہیں شرم نہیں آئی کہ انہوں نے مہر کے بغیر اپنے آپ کو پیش کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (توجی من تشاء منھن وتووی الیک من تشآء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک۔ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں، اور جن کو آپ نے الگ کررکھا تھا ان میں سے کسی کو پھر طلب کرلیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے یہ کہا : ” میں تو یہی دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مرضی پوری کرنے میں بڑی سرعت دکھا رہا ہے۔ لفظ ہبہ کے ساتھ عقدنکاح کے جواز پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن علی بن زید صائغ کے حوالے سے سنائی گئی ہے، انہیں یہ روایت سعید بن منصور نے سنائی ہے۔ انہیں یعقوب بن عبدالرحمن نے، انہیں ابوحازم نے حضرت سہل بن سعد سے کہ ایک عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں اپنی ذات آپ کے لئے ہبہ کرنے کی غرض سے آئی ہوں۔ “ یہ سن کر آپ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اپنے سر کو جنبشدی۔ یعنی آپ نے گویا انکار کردیا۔ اس موقعہ پر ایک صحابی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ اگر آپ کو نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو اس خاتون کا میرے ساتھ نکاح کرادیجئے۔ راوی نے سلسلہ گفتگو کی روایت کرتے ہوئے کہا کہ اس صحابی نے یہ عرض کیا کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا۔” جائو میں نے اس عورت کو قرآن کی ان سورتوں کے بارے جو تمہیں یاد ہیں تمہاری ملکیت میں دے دیا، “ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے لفظ تملیک کے ساتھ عقد نکاح کرادیا تھا اور ہبہ کا لفظ بھی تملیک کے الفاظ میں داخل ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ لفظ ہبہ کے ساتھ بھی عقد نکاح درست ہوجائے۔ نیز یہ کہ جب سنت کے ذریعے تملیک کے لفظ کے ساتھ عقد نکاح کا ثبوت ہوگیا تو لفظ ہبہ کے ساتھ بھی اس کا ثبوت ہوگیا کیونکہ کسی نے بھی ان دونوں لفظوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ” قرآن کی ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں، میں نے تمہارے ساتھ اس عورت کا نکاح کرادیا۔ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ تزویج کے لفظ کا ذکر کیا ہوا اور پھر لفظ تملیک کا ذکر کیا ہو اور اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہو کہ یہ دونوں لفظ عقد نکاح کے جواز کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ نیز جب عقد نکاح تملیکات کے دوسرے عقود کے ساتھ اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ اس میں وقت کے ذکر کے بغیر اسے مطلق رکھا جاتا ہے اور توقیت کی وجہ سے یہ فاسد ہوجاتا ہے تو اس سے ضروری ہوگیا کہ دوسری اشیاء مملوکہ کی طرح لفظ تملیک اور ہبہ کے ذریعہ اس کا بھی انعقاد جائز ہوجائے۔ تملیک کے تمام الفاظ کے اس جواز کے لئے یہی بات بنیاد اور اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ لفظ اباحت کے ساتھ عقد نکاح کا جواز نہیں ہوتا کیونکہ یہاں ایک اور حکم بھی ہے جس کی موجودگی لفظ اباحت کے ساتھ عقد نکاح کے جواز کو مانع ہے۔ یہ متعہ کا حکم ہے جسے حضور ﷺ نے حرام قرار دیا ہے ۔ متعہ کے معنی عورت سے جنسی لطف اندوزی کی اباحت کے ہیں۔ اس لئے ہر ایسا لفظ جس میں اباحت کا مفہوم پایا جائے گا متعہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ساتھ عقد نکاح کا انعقاد نہیں ہوگا اور ہر ایسا لفظ جس میں تملیک کا مفہوم پایا جائے گا تملیکات کے تمام عقود پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ساتھ عقد نکاح کا انعقاد ہوجائے گا کیونکہ عقد نکاح تملیکات کے عقود کے ساتھ ان وجوہ کی بنا پر مشابہت رکھتا ہے جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے۔ اس خاتون کے متعلق اختلاف رائے ہے جس نے اپنی ذات کو حضور ﷺ کے لئے ہبہ کردیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے نیز عکرمہ سے کہ یہ خاتون میمونہ بنت الحارث تھیں۔ علی بن الحسن کا قول ہے کہ یہ ام شریک تھیں جن کا تعلق قبیلہ دوس سے تھا۔ شعبی سے مروی ہے کہ یہ ایک انصار یہ خاتون تھیں۔ ایک قول کے مطابق یہ زینب بنت خزیمہ انصاریہ تھیں۔
Top