Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
(اے پیغمبر ﷺ ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہارے ہاتھ کا مال ہے (یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے) اور خدا ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے
قول باری ہے (لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج۔ ان عورتوں کے بعد آپ کے لئے کوئی جائز نہیں اور نہ یہی کہ آپ ان بیویوں کی جگہ دوسری کرلیں) لیث نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ ان خواتین کے بعد جن کا اوپر ذکر ہوا ہے کسی سے نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہو یا یہود یہ یا نصرانیہ یا کافرہ۔ مجاہد سے قول باری (الا ما ملکت یمینک۔ مگر ہاں بجز ان کے جو آپ کی لونڈیاں ہوں) کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہودیہ یا نصرانیہ لونڈی سے ہم بستری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سعید نے قتادہ سے قول باری (لا یحل لک النساء ولا ان تبدل بھن من ازواج) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کرلیا تو اس نے حضور ﷺ کو ان پر انحصار کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ نو ازواج مطہرات تھیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول نیز دار آخرت کو منتخب کرلیا تھا ۔ حسن کا بھی یہی قول ہے۔ اس روایت کے علاوہ ایک اور روایت بھی ہے جسے اسرائیل نے سدی سے ، انہوں نے عبداللہ بن شداد سے قول باری (لا یحل لک النساء) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اگر حضور ﷺ ان سب کو طلاق دے دیتے تو اس صورت میں آپ کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہ ہوتا۔ اس آیت کے نزول کے بعد بھی آپ نے نکاح کیا تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت آپ کے عقد میں نو ازواج تھیں۔ پھر آپ نے حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان اور جویریہ بنت الحارث سے نکاح کیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر ان خواتین کے سوا جو نزول آیت کے وقت آپ کے عقد میں تھیں تمام دوسری خواتین حرام کردی گئی تھیں۔ ابن جریج نے عطاء سے، انہوں نے عبید بن عمبر سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے انتقال تک آپ کے لئے عورتوں سے نکاح حلال رہا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت اس بات کی موجب ہے کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جو اس آیت کے نسخ کی موجب ہو اس لئے اس کا نسخ سنت کی بناء پر عمل میں آیا ہے۔ اس میں سنت کی بنا پر قرآن کے نسخ کی دلیل موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (لا یحل لک النساء من بعد) خیر کی صورت میں ہے اور خبر کے لئے اس بات کا جواز نہیں ہوتا کہ اس کے مجہرا کے سلسلے اسے منسوخ تسلیم کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگرچہ یہ خبر کی صورت میں ہے لیکن معنی کے لحاظ سے یہ نہی ہے اور نہی پر نسخ وارد ہونا جائز ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت اس فقرے جیسی ہے۔ (لاتنزوج بعد ھن النساء ۔ ان ازواج کے بعد آپ دیگر عورتوں سے نکاح نہ کیجئے) اس لئے اس کا نسخ جائز ہے۔ قول باری ہے (ولواعجبک حسنھن ۔ خواہ ان کے حسن آپ کو بھلا ہی کیوں نہ لگے) یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجنبی عورت کے چہرے پر نظر ڈالنے کا جواز ہے۔ کیونکہ حسن کا بھلا لگنا اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب اس کے چہرے پر نظر ڈال لی جائے۔
Top