Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 53
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : کردے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : فرمایا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا تُكَلِّمَ : تو نہ بات کرے گا النَّاسَ : لوگ (جمع) ثَلٰثَ : تین لَيَالٍ : رات سَوِيًّا : ٹھیک
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
عورتوں کو پردہ کرنے کے حکم کا بیان قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر ناظرین اناہ۔ اے ایمان لانے والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو بجز اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لئے (آنے کی) اجازت دی جائے اور (وہاں جاکر) اس کی تیاری کے منتظر نہ ہو) ۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ابوعثمان سے، ان کا نام جعد بن دینار ہے، اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے جب حضرت زینب ؓ سے عقد کیا تو حضرت ام سلیم ؓ نے نے پتھر کے ایک چھوٹے سے برتن میں آپ کے لئے ہدیہ کے طور پر حلوہ بھیجا۔ حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ باہر جاکر جو مسلمان بھی تمہیں ملے اسے میرے گھر بھیج دو ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ لوگ آتے رہے اور کھانے کے بعد باہر چلے جاتے رہے۔ حضور ﷺ نے اس پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگی تھی اور اللہ نے جو کچھ چاہا تھا آپ ﷺ نے اس پر پڑھا تھا۔ اس دن مجھے بھیجو ملتا گیا میں اسے حضور ﷺ کے گھر بھیجتا گیا جتنے لوگ آئے تھے سب نے سیر ہوکر کھایا تھا۔ آنے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ وہیں ٹھہر گئے اور حضور ﷺ کے ساتھ دیر تک باتیں کرتے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ بشربن المفضل نے حمید الطویل سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے حضرت زینب ؓ کے ساتھ شب عروسی گزارنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ولیمہ کا انتظام تھا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ شب عروسی کی جب صبح ہوتی تو امہات المومنین کے حجروں سر پے آپ گزرتے انہیں سلام کہتے وہ بھی جواب میں سلام کہتیں۔ آپ ان کے لئے دعا کرتے وہ بھی آپ کے لئے دعا کرتیں۔ ولیمہ کھا کر لوگ جب فارغ ہوگئے اور اپنے اپنے گھر کی طرف واپس ہونے لگے تو گھر کے کونے سے آپ کی نظر دو آدمیوں پر پڑی جو کسی بحث میں مصروف تھے، اس وقت میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ یہ دیکھ کر آپ واپس مڑنے لگے جب ان دونوں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے دیکھا تو فوراً اٹھ کر گھر سے نکل گئے۔ جب آپ کو ان کے چلے جانے کی اطلاع مل گئی تو آپ واپس ہوکر گھر میں داخل ہوگئے اور پردے لٹکا لیے اور پھر پردے کی آیت نازل ہوئی۔ حماد بن زید نے اسلم العلوی سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب پردے کی آیت نازل ہوئی تو میں آپ کے گھر پر آیا اور حسب معمول گھر کے اندر جانے لگا۔ اتنے میں آپ نے آواز دی۔ “ انس پیچھے جائو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں کئی احکام موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ اجازت کے بغیر حضور ﷺ کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت نیز یہ کہ جب انہیں کھانے کے لئے بلایا جائے تو وہاں پہلے سے پہنچ کر کھانا تیار ہونے کے انتظار میں بیٹھے نہ رہیں۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہوجائیں تو وہاں بیٹھ کر باتوں کا سلسلہ نہ شروع کردیں۔ مجاہد سے (غیر ناظرین اناہ) کی تفسیر میں منقول ہے کہ کھانا تیار ہونے کے وقت کے انتظار میں نہ رہیں۔ اور کھانے سے فراغت کے بعد گفتگو کا کوئی سلسلہ نہ شروع کریں۔ ضحاک کا قول ہے کہ آیت میں (اناہ) کے معنی کھانا تیار ہوجانے کے ہیں۔ قول باری ہے (واذا سالتموھن متاعا فاسئلو ھن من وراء حجاب اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو) یہ آیت حضور ﷺ کی ازواج مطہرات پر نظر ڈالنے کی ممانعت پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہ چیز ان کے دلوں کے لئے نیز ازواج مطہرات کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ کیونکہ نظر پڑنے سے بعض دفعہ میلان اور شہوت کا خدشہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بنا پر پردہ کا حکم واجب کرکے اس چیز کی جڑ کاٹ دی۔ قول باری ہے (وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ ولا ان تنکحو ازواجۃ من بعدہ ابدا اور تمہیں یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچائو اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو) اس سے مراد وہ احکامات ہیں جو آیت میں بیان کیے گئے ہیں کہ حضور ﷺ کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت حاصل کرنا واجب ہے ، کھانا کھانے کے بعد وہاں بیٹھ کر گفتگو کو طوالت دینے کی ممانعت ہے۔ نیز ازواج مطہرات اور لوگوں کے درمیان پر وہ ضروری ہے۔ اس حکم کا نزول اگرچہ حضور ﷺ اور ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے لیکن اس کا مفہوم عام ہے جو آپ کے ساتھ تمام مسلمانوں کو بھی شامل ہے کیونکہ آپ کی اتباع اور اقتداء کا حکم دیا گیا ہے الا یہ کہ کسی حکم کا تعلق صرف آپ کی ذات کے ساتھ ہوا اور اس حکم میں امت کو شریک نہ کیا گیا ہو۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے یہ کہا تھا کہ جب حضور ﷺ کا انتقال ہوجائے گا تو میں حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قتادہ نے جو بات بیان کی ہے وہ بھی آیت کے مضمون کا ایک پہلو ہے عیسیٰ بن یونس نے ابواسحق سے، انہوں نے صلۃ بن زفر سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ اگر تمہیں یہ بات پسندہو کہ جنت میں بھی میری بیوی رہو تو وہاں بھی ہم ایک ہی مکان میں رہیں تو میرے مرنے کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنا کیونکہ عورت اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہوگی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی ازواج پر آپ کے بعد نکاح کرنا حرام کردیا ہے۔ حمید الطویل نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ ایک عورت کے بعض دفعہ دو خاوند ہوتے ہیں۔ مرنے کے بعد سب جنت میں چلے جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ عورت کسی خاوند کو ملے گی۔ آپ نے جواب دیا۔” ام حبیبہ ! اس خاوند کو جس نے دنیا میں اس کے ساتھ حسن معاشرت کا زیادہ مظاہرہ کیا تھا اور اسی کے ساتھ زیادہ خوش خلقی سے پیش آیا تھا۔ یہ عورت اس کی بیوی بنے گی۔ ام حبیبہ ! ایسا شخص اپنے حسن اخلاق کی بنا پر دنیا اور آخرت کی بھلائیاں سمیٹ لے جائے گا۔ “
Top