Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 129
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ١ؕ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلَنْ : اور ہرگز نہ تَسْتَطِيْعُوْٓا : کرسکو گے اَنْ : کہ تَعْدِلُوْا : برابری رکھو بَيْنَ النِّسَآءِ : عورتوں کے درمیان وَلَوْ : اگرچہ حَرَصْتُمْ : بہتیرا چاہو فَلَا تَمِيْلُوْا : پس نہ جھک پڑو كُلَّ الْمَيْلِ : بلکل جھک جانا فَتَذَرُوْھَا : کہ ایک کو ڈال رکھو كَالْمُعَلَّقَةِ : جیسے لٹکتی ہوئی وَاِنْ : اور اگر تُصْلِحُوْا : اصلاح کرتے رہو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر میں لٹک رہی ہے اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور پرہیزگاری کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
بیویوں میں پورا پورا عدل کرو قول باری ہے ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقۃ۔ بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو ) ۔ ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد دلی محبت اور میلان طبعی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ حسن اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے قول باری فلاتمیلواکل المیل۔ میں مراد۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ اس میلان کا بالفعل اس طرح اظہار نہ کیا جائے کہ ایک بیوی سے پوری طرح منہ موڑ کر دوسری بیوی کا رخ کرلیا جائے۔ اس پر قول باری فتذروھا کالمعلقۃ) دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سعید بن جبیر، حسن ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ اس بیوی کی کیفیت یہ ہوجائے کہ وہ نہ تو شوہر والی شمار ہو اور نہ ہی بن بیاہی۔ قتادہ نے نضہ بن انس ہے، انہوں نے بشیر بن نہیک سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من کانت لہ امراتان یمیل مع احدھما علی الاخری جاء یوم القیامۃ واحد شقیہ ساقط۔ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کے مقابلہ میں دوسری کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہو تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک کنارہ جھک کر گرا ہوا ہوگا) ۔ یہ روایت بھی دو بیویوں کے درمیان انصاف کے ساتھ باریاں مقرر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ اگر شوہر انصاف نہیں کرسکتا تو علیحدگی بہتر ہے کیونکہ قول باری ہے فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے) ۔ باری مقرر کرنے میں انصاف سے کام لینے کے وجوب اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف میلان کو ترک کرنے کے ذکر کے بعد فرمایا وان یتفرقایغن اللہ کلا من سعتہ۔ لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بےنیاز کر دے گا) اس میں ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے تسلی دی گئی ہے اور دل کا بوجھ ہلکا کیا گیا ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بےنیاز کر دے گا اگر دونوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ حقوق کی پامالی کے خوف سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانے کا قصد کیا ہو۔ یہ بھی واضح کردیا گیا کہ تمام بندوں کا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بندے اگر رزق کا ذریعہ بنتے بھی ہیں تو اس صورت میں بھی سبب پیدا کرنے والا اللہ ہی ہوتا ہے اور اس پر تمام تعریفوں اور حمد و ثناء کا وہی مستحق ہوتا ہے۔
Top