Tafseer-al-Kitaab - An-Nisaa : 129
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ١ؕ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلَنْ : اور ہرگز نہ تَسْتَطِيْعُوْٓا : کرسکو گے اَنْ : کہ تَعْدِلُوْا : برابری رکھو بَيْنَ النِّسَآءِ : عورتوں کے درمیان وَلَوْ : اگرچہ حَرَصْتُمْ : بہتیرا چاہو فَلَا تَمِيْلُوْا : پس نہ جھک پڑو كُلَّ الْمَيْلِ : بلکل جھک جانا فَتَذَرُوْھَا : کہ ایک کو ڈال رکھو كَالْمُعَلَّقَةِ : جیسے لٹکتی ہوئی وَاِنْ : اور اگر تُصْلِحُوْا : اصلاح کرتے رہو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرو گو تمہارا کتنا ہی جی چاہے (کیونکہ دل کا قدرتی میلان تمہارے بس کا نہیں، کسی کی طرف زیادہ ہوگا کسی کی طرف کم، ) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک طرف جھک پڑو کہ دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو ۔ اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ بیشک (بڑا ہی) بخشنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ہے۔
[83] شروع سورت (آیت نمبر 3) میں تعداد ازواج کی اجازت عدل کے ساتھ مشروط کی گئی تھی اور فرمایا گیا تھا کہ اگر عدل نہ کرسکو تو ایک بیوی پر قناعت رکھنا۔ اس موقع پر عدل سے مراد تھی معاملات میں عدل (ملاحظہ ہو حاشیہ 4) ۔ اس آیت میں عدل سے مراد مساوات امور غیر اختیاری ہے، مثلاً محبت ورغبت میں اور ایسی مساوات کامل تو والدین بھی اپنی ساری اولاد کے درمیان نہیں رکھ سکتے۔ لفظ عدل دونوں جگہ مشترک ہے۔ لیکن مفہوم الگ الگ ہے اور اس اسلوب بیان کی مثالیں قرآن میں بکثرت ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر عدل کو ناممکن قرار دے کر قرآن تعدد ازواج کی اجازت کو منسوخ کردیتا ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے تو اس کی اس آیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر صرف اتنا کہا گیا ہوتا کہ '' تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے '' تو یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا مگر اس کے فوراً بعد ہی جو یہ فرمایا گیا کہ '' پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی بیوی کی طرف جھک پڑو ''۔ اس فقرے نے اس مطلب کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
Top