Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 36
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور ان لوگوں نے جنہوں نے شرک کیا۔ کہا کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرتے اور نہ ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھراتے۔ (اللہ نے فرمایا کہ ) اسی طرح ان سے پہلے لوگ بھی ایسا کرچکے ہیں۔ (لیکن یاد رکھو) ہمارے رسولوں کی ذمہ داری صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 35 تا 37 ماعبدنا ہم نے عبادت و بندگی نہیں کیا۔ لاحرمنا ہم حرام نہ کرتے۔ البلاغ پہنچا دینا ہے۔ بعثنا ہم نے بھیجا۔ اجتنبوا بچتے رہو۔ الطاغوت شیطان، سرکش۔ حقت ثابت ہوگیا۔ سیروا چلو پھرو۔ عاقبۃ انجام۔ ان تحرص اگر آپ کی شدید خواہش ہے۔ تشریح : آیت نمبر 35 تا 37 بے جا ضد، ہٹ دھرمی اور نافرمانی ایک ایسی بری عادت ہے جو انسان کو ہر خیر اور بھلائی سے اس طرح محروم کردیتی ہے کہ اس کو سامنے کی حقیقت بھی نظر نہیں آتی مثلاً جب کفار و مشرکین سے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے کفر، شرک اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کرلیں تو وہ یہ کہتے تھے کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ اس کائنات میں ساری قدرت و طاقت اللہ ہی کی ہے تو ہم کیا کریں اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرتے نہ ہم اور ہمارے باپ دادے شرک اور کفر کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جاہلانہ بات کا جواب یدنے کے بجائے یہ ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ان کی احمقانہ باتوں کی پرواہ نہ کیجیے اسی طرح ان سے پہلی قوموں نے بھی ایسی ہی باتیں کی تھیں اور پھر وہ اپنے بد اعمالیوں کے سمندر میں غرق ہوچکی ہیں۔ فرمایا کہ اللہ کے رسول کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کی سچائی کو پورے خلوص اور محنت سے ان تک پہنچا دے جو کفر کی وادیوں میں اپنے سر ٹکراتے پھر رہے ہیں اگر یہ مانتے ہیں تو ان کو دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں مل جائیں گی اور اگر انہوں نے گزشتہ امتوں کے جیسے طریقے اختیار کئے تو وہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح اپنے برے انجام سے نہیں بچ سکتے۔ فرمایا کہ اگر ان لوگوں کو ذرا بھی عقل ہوتی تو یہ ان کھنڈرات کو جا کر دیکھتے جن میں ان ہی جیسے انسان رہتے تھے لیکن اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے وہ اور ان کے گھر بار نشان عبرت بن چکے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے جس نے ایک ہی پیغام دیا ہے کہ اے لوگو ! تم سب اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرو اور شیطان اور کفر و شرک کے کاموں سے بچو۔ جنہوں نے اس پیغام ہدایت کو سن کر اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کرلی وہ تو کامیاب ہوگئے لیکن جنہوں نے کفر و شرک کر کے اپنے اوپر ذلالت و گمرایہ کی مہریں لگوا لی ہیں وہ سخت ناکام ہوئے۔ فرمایا کہ یہ لوگ ان قوموں کے گھر بار اور ان کے تہذیب و تمدن کے کھنڈرات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ان کا کتنا بھیانک انجام ہوا۔ آخر میں فرمایا کہ اے نبی ﷺ ہم جاتنے ہیں کہ آپ کی یہ تمنا ہے کہ دنیا بھر کے تمام لوگ ہدیات پر آجائیں اور گم راہی سے توبہ کرلیں لیکن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نہ تو ہدایت دیتا ہے اور نہ کوئی مدد کرتا ہے جنہوں نے کفر و شرک کرتے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنا لیا ہے۔ اب ان کا انجام تو یہی ہے کہ ان پر بھی وہی عذاب مسلط کردیا جائے جو ان سے پہلی امتوں پر نازل کیا گیا تھا۔
Top