Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 35
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
یہ مشرکین کہتے ہیں”اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اَور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔“30 ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں۔31 تو کیا رسُولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمّہ داری ہے؟
سورة النَّحْل 30 مشرکین کی اس حجت کو سورة انعام آیات نمبر 148149 میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ وہ مقام اور اس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہوگی۔ (ملاحظہ وہ سورة انعام، حواشی نمبر 124 تا نمبر 126)۔ سورة النَّحْل 31 یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا پورا لطف اٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر کرچکا ہے جو وہ قرآن کے خلاف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ ”اجی ! وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں“۔ گویا ان کو نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفان نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔ اس کے جواب میں ان کی دلیل (جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں، یہ مایہ ناز دلیل جو آپ لائے ہیں اس میں قطعی کوئی اُپچ موجود نہیں ہے، وہی دقیانوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں، آپ نے بھی اسی کو دہرا دیا ہے۔
Top