Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 31
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے۔ کہنے لگا اے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اس کوّے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا پھر وہ پیشمان ہوا۔
مردوں کی تدفین قول باری ہے (فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سواۃ اخیہ۔ پھر اللہ نے ایک کو آ بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے) حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، مجاہد، معتدی، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس لاش کو کیسے ٹھکانے لگائے حتیٰ کہ ایک کوا نمودار ہوا جس نے زمین کھود کر ایک مردہ کوے کو دفنانا شروع کردیا۔ اس میں حسن بصری کے اس قول کے بطلان کی دلیل موجود ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں سے بنی اسرائیل کے دو افراد مراد ہیں۔ اس لئے کہ اگر یہ بات ایسی ہوتی تو مردے کو دفنانے کی بات اسے اس واقعہ سے پہلے معلوم ہوتی اس لئے کہ لوگوں میں یہ رسم اور عادت موجود تھی۔ مردوں کو دفنانے کا یہی طریقہ تھا۔ قول باری ہے (ثم اماتہ فاقبرہ۔ پھر اسے مار دیا اور قبر میں اتار دیا) یعنی دفنا دیا نیز قول باری ہے (الم نجعل الارض کفاتا احیاء و اموات۔ کیا ہم نے زمین کو زندہ دل اور مردوں کے جمع کرنے کی جگہ نہیں بنادی) ۔ قول باری (سواۃ اخیہ) کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ایک ” اپنے بھائی کی لاش “ اس لئے کہ اگر وہ اس لاش کو اس طرح پڑی رہنے دیتا یہاں تک کہ اس میں تعفن پیدا ہوجاتا تو اس پر ” سواۃ “ کے لفظ کا اطلاق ہوتا۔ دوسری تفسیر ہے ” بھائی کی شرمگاہ “ یہاں دونوں مفہوم مراد لینا درست ہے اس لئے کہ لفظ میں دونوں کا احتمال ہے۔ سوء ۃ کے اصل معنی تکرہ یعنی ناپسندیدگی کے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسا کام کرے جو دوسرے کو ناپسند ہو اور اسے برا لگے تو اس موقعہ پر کہا جاتا ہے ” ساء ہ، یسوء ۃ، سوء اً “ اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ منصوص طور پر اس لئے بیان کیا کہ ہم اس سے عبرت حاصل کریں اور قاتل بھائی نے جو رویہ اختیار کیا تھا اس سے پرہیز کریں۔ حسن سے مروی ہے کہ حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے (ان اللہ ضرب لکم ابنی آدم مثلاً فخذوا من خیرھما و دعواشرھما۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آدم کے دو بیٹوں کی مثال بیان کی ہے اس لئے ان میں سے جو بھلا تھا اس کا طریقہ اختیار کرو اور برے کا طریقہ چھوڑ دو ۔ قول باری ہے (فاصبح من النار میں اس کے بعد وہ اپنے کئے پر بہت پچھتایا) ایک قول ہے کہ اسے قتل کے فعل پر ندامت ہوئی جو تقرب الٰہی کے سوا کسی اور مقصد کے تحت وقوع پذیر ہوا تھا۔ اسے اس کی سزا کا بھی خوف پیدا ہوگیا۔ اس کا پچھتاوا اس بنا پر تھا کہ جس مقصد کے تحت اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا تھا وہ مقصد بھی اسے حاصل نہ ہوسکا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے ماں باپ کی طرف سے نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اگر وہ اپنے کئے پر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ندامت کا اظہار کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا اور اس کا یہ گناہ معاف کردیتا۔
Top