Ahkam-ul-Quran - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیے رہو تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو
خدا کی حمدوثنا کہاں کہاں اور کیسے کیے ہو ؟ قول باری ہے (وسبح بحمد ربک حین تقوم، اور آپ جب اٹھا کیجئے تو اپنے رب کی حمدوتسبیح کیا کیجئے) حضرت ابن مسعود ؓ ، ابوالاحوص اور مجاہد کا قول ہے۔ جس وقت آپ کسی بھی جگہ سے اٹھ کھڑے تو یہ دعا پڑھیں۔ (سبحانک وبحمدک الا الہ الا انت استفرک واتوب الیک) علی بن ہاشم نے روایت کی ہے کہ اعمش سے پوچھا گیا کہ آیا ابراہیم نخعی جب نشست سے کھڑے ہوتے تو وہ یہ دعا پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ” سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ “ اعمش نے جواب دیا کہ ابراہیم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ اس سنت کا درجہ دے دیا جائے۔ ضحاک نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ اس سے نماز کا افتتاح مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی اس سے مراد یہ دعا ہے۔ ” سبحانک اللہ وبحمدک و تبارک اسمک الی اخرہ “ حضور ﷺ سے مروی ہے آپ تکیہ تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ ابوالجوزاء کا قول ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ ” جب آپ نیند سے بیدار ہوکر اٹھیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی جتنی تاویلیں کی گئی ہیں ان تمام کے لئے عموم کا جواز موجود ہے۔ قول باری (وادبار النجوم۔ اور ستاروں کے پیچھے بھی) صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ اس سے فجر کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ اس بارے میں حضور ﷺ سے بہت سی روایتیں منقول ہیں۔ سعد بن ہشام نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (رکعتا الفجر خیر من الدنیا ومافیھا۔ فجر کی دو رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہے) عبید بن عمیر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کو کسی نفل نماز کی ادائیگی کے لئے اور نہ ہی مال غنیمت کی تقسیم کے لئے اس قدر سرعت سے کام لیتے دیکھا جس قدر آپ فجر کی دو رکعتیں ادا کرنے میں سرعت سے کام لیتے تھے۔ ایوب نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الرکعتان قبل صلوٰۃ الفجر واجبتان علی کل مسلم، ہر مسلمان پر فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں واجب ہیں) یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو ہرگز نہ چھوڑ و کیونکہ ان میں رغائب موجود ہیں۔ “ یعنی ان کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے انعامات ملیں گے۔ “ یہ بھی فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تم پر گھوڑ سواروں کا دستہ کیوں نہ حملہ آور ہوجائے۔ “
Top