Al-Qurtubi - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیے رہو تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو
واصبر لحکم ربک فانک باعیننا اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ واصبر لحکم ربک ایک قول یہ کیا گیا ہے : اپنے رب کے فیصلہ پر صبر کیجیے جو اس نے آپ پر رسالت کی ذمہ داریاں ڈالیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس آزمائش پر صبر کیجیے جو اس نے آپ کی قوم کی جانب سے آپ کو آزمائش میں ڈالا۔ پھر آیت سیف کے ساتھ اسے منسوخ کردیا گیا۔ مسئلہ نمبر 2 فانک باعیننا ہماری آنکھوں کے سامنے جو تم کہتے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو ہم اسے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیونکہ ہم تجھے دیکھتے ہیں، تیری حفاظت کرتے ہیں۔ سب کا معنی ایک ہی ہے، اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولتصنع علی عینی۔ (طہ) مراد میری حفاظت اور میری نگہبانی میں۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ وسبح بحمد ربک حین تقوم۔ حین تقوم کی تاویل میں اختلاف ہے۔ عون بن مالک حضرت ابن مسعود، عطا، سعید بن جبیر، سفیان ثوری اور ابوا حوص نے کہا، جب وہ اپنی مجلس سے اٹھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : سبحان اللہ وبحمدہ یا سبحانک اللھم و بحمداک (1) اگر مجلس اچھی ہو تو اچھی تعریف میں اضافہ کرتے ہیں اگر کوئی اور معاملہ ہو تو یہ کلمات اس کے لئے کفارہ بن جاتے ہیں، اس تاویل کی دلیل وہ روایت ہے جسے امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من جلس فی مجلس فکثرفیہ لغطہ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ سبحانک اللھم وبحمدک اشھدان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک لاغفر لہ مان کان فی مجلسہ ذلک (2) جو آدمی کسی مجلس میں بیٹھا اس میں اس کی غلطیاں بہت زیادہ ہوئیں اس نے مجلس سے اٹھنے سے قبل یہ کہا، سبحانک اللھم وبحمدک … واتوب الیک تو اس مجلس میں سے اس سے جو غلطیاں ہوئیں یہ الفاظ اس کا کفارہ بن جائیں گئے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے (3) اسی بارے میں حضرت ابن عمر سے روایت مروی ہے : ہم ایک مجلس میں اٹھنے سے قبل حضور ﷺ کی یہ تسبیح سو دفعہ گنا کرتے تھے رب اغفرلی وتب علی انک انت التواب الغفور اے میرے رب ! مجھے بخش دے میری توبہ قبول فرما تو تو اب اور غفور ہے۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے (4) محمد بن کعب، ضحاک اور ربیع نے کہا، معنی ہے جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے۔ ضحاک نے کا، آپ کہتے اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا و سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا طبری نے کہا، یہ تعبیر حقیقت سے بہت ہی بعید ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : حین تقوم تکبیر کے بعد تسبیح پر دلالت نہیں کیونکہ تکبیر قیام کے بعد ہوتی ہے اور تسبیح اس کے بعد ہوتی ہے۔ پس یہ امر اس بات پر دال ہے کہ اس سے مراد ہے کہ تو جس مکان سے بھی اٹھے، جس طرح حضرت ابن مسعود سے فرمایا ؎ ابو جوزاء اور حسان بن عطیہ نے کہا، معنی ہے جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ حسان نے کہا، تاکہ وہ اپنے عمل کا آغاز اللہ تعالیٰ کے ذکر سے کرنے والا ہو۔ کلبی نے کہا : جب تو اپنے بستر سے اٹھے تو زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر یہاں تک کہ تو نماز میں داخل ہوجائے اور وہ نماز، نماز فجر ہے اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت عبادہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : من تعاز فی اللیل فقال لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کلی شیء قدیر والحمد اللہ و سبحان اللہ واللہ اکبر ولا حول ولاقوتۃ الا باللہ (1) جو رات کو اٹھا اور اس نے یہ کلمات پڑھے لا الا الا اللہ … الا باللہ پھر کہا، اے اللہ ! مجھے بخش یا کوئی دعا کی تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔ اگر اس نے وضو کیا اور نماز پڑھی تو اس کی نماز قبول کی جائے گی۔ اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے۔ تعار الرجل من اللیل سے مراد ہے وہ آواز نکالتے وہئے نیند سے اٹھا اسی سے یہ جملہ بولا جاتا ہے عار الظلیم یعار عرار ابع کہتے ہیں : عزالظلیم یعر عرار مظلوم نے آواز لگائی، جس طرح وہ کہتے ہیں : زمر النعام یزمرزمارا۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کے وسط میں نماز کے لئے اٹھتے تو کہتے : اللھم لک الحمد انت نور السموات والارض ومن فیھن ولک الحمدانت قیوم السموات والارض ومن فیھن ولک الحمد انت رب السموات والارض ومن فیھن ان الح و عدک الحق وقلک الحق ولقاءک الحق و الجنۃ حق و النار حق والساعۃ حق و النبیون حق و محمد حق اللھم لک اسلمت و علیک توکلت وباء آمنت والیک انبت و ربک خاصیت والیک حاکمیت فاغفرلی ماقدمت وما اخرت و اسررت و اعلنت انت المقدمہ وانت الموخر لا الہ الا انت و لا الہ غیرک (2) متفق علیہ اے اللہ ! تیرے لئے حمد ہے تو آسمان اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کا نور ہے تیرے لئے حمد ہغے تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو قائم رکھنے والا ہے تیرے لئے حمد ہے تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے انبیاء حق ہیں اور حضرت محمد ﷺ حق ہیں اے اللہ ! میری اگلی پچھلی، مخفی اور اعلانیہ خطائیں معاف فرما دے تو ہی معبود برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ حضرت ابن عباس سے یہب یھ مروی ہے، جب آپ رات کے وقت اٹھتے تو اپنے چہرے سے نیند کے آثار کو دور کرتے، پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کرتے۔ (3) زید بن اسلم نے کہا، معنی ہے جب آپ ظہر کی نماز کے لئے قیلولہ کی نیند سے اٹھتے۔ ابن عربی نے کہا، جہاں تک قیلولہ کی نیند کا تعلق ہے اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا یہ تو صرف رات کی نیند کے ساتھ ملحق ہوتا ہے (1) ضحاک نے کہا، اس سے مراد نماز میں تسبیح ہے جب نماز کے لئے آپ اٹھتے۔ ماوروی نے کہا، اس تسبیح کے بارے میں دوق ول ہیں (1) مراد سبحان ربی العظیم ہے جو رکوع میں پڑھی جاتی ہے اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی کہنا ہے (2) نماز میں یہ کلمات توجہ سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک ابن عربی نے کہا، جس نے کہا اس سے مراد نماز کی تسبیح ہے تو یہ افضل ہے۔ اس میں آثار بہت زیادہ ہیں۔ سب سے عظیم وہ ہے جو حضرت علی شیر خدا سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے ہ : وجھت وجھی (2) ہم نے اس کا اور اس کے غیر کا ذکر سورة الانعام میں کیا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابوبکر صدیق سے مروی ہے انہوں نے کہا، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے ایسی دعا سکھائیں جو میں نماز میں مانگا کروں گا فرمایا : کہو اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و لایغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم (3) اے اللہ ! میں نے اپنی جانب پر بیشمار ظلم کئے ہیں تیرے سوا کوئی گناہ بخشنے والا نہیں مجھے اپنی بارگاہ سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما تو غفور رحیم ہے۔
Top