Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیے رہو تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو
48۔ 49۔ ابوجعفر بن جریرنے کھڑے ہونے کی تفسیر سوتے سے اٹھنے کے وقت کی کی ہے اور اس تفسیر کی تائید ان صحیح حدیثوں سے ہوتی ہے جو صحاح 4 ؎ میں ہیں کہ آنحضرت ﷺ سوتے سے اٹھ کر اکثر اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی سوتے سے اٹھ کر اللہ کی توحید بیان کرے اور پھر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا قبول فرماتا ہے۔ سفیان 5 ؎ ثوری اور سلف نے کھڑے ہونے کی تفسیر کسی مجلس سے اٹھنے کی کی ہے اور دعا کفارۃ المجلس کی حدیث جو ترمذی 6 ؎ وغیرہ میں ہے۔ اس تفسیر کی تائید میں پیش کی ہے جس کو ترمذی نے صحیح کہا ہے لیکن حقیقت میں بات یہ ہے کہ آیت کا مطلب عام ہے اور دونوں قسم کی حدیثیں آیت کی تفسیر قرار پا سکتی ہیں۔ رات کی تسبیح کی تفسیر اکثر مفسروں نے تہجد کی اور تاروں کے ڈوبنے کے وقت کی تسبیح کی تفسیر صبح کی دو سنت رکعتوں کی کی ہے۔ صحیحین 7 ؎ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نفل نمازوں میں سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کو صبح کی دو سنتوں کا خیال رہتا تھا۔ فقہ حنبلی میں یہ لکھا ہے کہ یہ دونوں رکعتیں واجب ہیں۔ اس پر اور علماء نے صحاح کی اس حدیث کے مضمون کے موافق اعتراض کیا ہے جس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کو آپ نے رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اس شخص نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کوئی نماز نہ پڑھوں گا آپ نے فرمایا اس سے زیادہ نفلی نماز ہے جس کے پڑھنے نہ پڑھنے کا تجھ کو اختیار ہے اس حدیث سے علماء نے وتر کے واجب ہونے کے قول کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ (5 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 245 ج 4۔ ) (6 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی القوم یجلسون ولایذکرون اللہ ص 196 ج 2۔ ) (7 ؎ صححش بخاری باب تعاھد رکعتی الفجر الخ ص 156 ج 1۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری باب فضل من تقار من اللیل فصلی ص 155 ج 1 و تفسیر ابن کثیر ص 245 ج 4۔ )
Top