Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 56
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ
وَيَحْلِفُوْنَ : اور قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَمِنْكُمْ : البتہ تم میں سے وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ مِّنْكُمْ : تم میں سے وَلٰكِنَّهُمْ : اور لیکن وہ قَوْمٌ : لوگ يَّفْرَقُوْنَ : ڈرتے ہیں
اور خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اصل یہ ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں۔
قول باری ہے (ولیحلفون باللہ انھم لمنکم ۔ وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں) عظمت والی ذات کا واللہ، باللہ کے الفاظ یا قسموں والے حروف کے ساتھ ذکر کے ذریعے جملے میں دی گئی خبر کی تاکید کو حلف کہتے ہیں۔ قسم اور یمین بھی اسی طرح منعقد ہوتے ہیں۔ تاہم حلف میں خبر کو عظمت والی ذات کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے۔ قول باری (ولیحلفون باللہ) میں ان کے متعلق یہ خبردی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی قسم کھائی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس میں مستقبل کی یہ خبر دی گئی ہے کہ یہ لوگ عنقریب اللہ کی قسم کھائیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” احلف باللہ “ تو یہ قسم ہوگی اور اگر حلف کے ذکر کو مخدوف کرکے صرف باللہ کہے تو بھی یہ قسم ہوجائے گی اس لئے کہ اس کی حیثیت اس قول جیسی ہوگی ” انا حالف باللہ ( میں اللہ کے نام کا حلف اٹھاتا ہوں) البتہ اگر حلف لینے والا اس سے وعدہع مراد لے تو اس صورت میں یہ فقرہ قسم پر محمول نہیں ہوگا بلکہ وعدہ کے معنوں پر محمول ہوگا۔ تاہم ظاہری طور پر اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ کہنے والا اس کے ذریعے حلف واقع کررہا ہے جس طرح کوئی یہ کہے انا اعتقدالاسلام (میں اسلام کا عقیدہ رکھتا ہوں) اس فقرے میں وعدہ کے معنوں کا بھی احتمال ہے۔ لیکن ” باللہ “ کا قول تو اس کے ذریعے قسم ہی واقع ہوگی اگرچہ اس میں لفظ ’ احلف ‘ (میں حلف اٹھاتا ہوں ) یا ٖ ’ حلقت ‘ (میں نے حلف اٹھایا) پوشیدہ ہے۔ ایک قول کے مطابق لفظ ’ حلف ‘ کو اس لئے محذوف کردیا گیا تاکہ یہ حلف کے وقوع پر دلالت کرے اور وعدہ کا احتمال ختم ہوجائے۔ جس طرح فقرہ ” واللہ لا فعلن “ (بخدا میں کروں گا) میں لفظ حلف مغذوف ہے تاکہ یہ دلالت حاصل ہوجائے کہ اس فقرہ کا قائل حلف اٹھارہا ہے وعدہ نہیں کررہا ہے۔ قول باری (انھم لمنکم) کا مفہوم ہے کہ ہم ” ہم ایمان، طاعت ، دین اور ملت کے لحاظ سے تمہی میں سے ہیں “ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تکذیب کردی اور انہیں جھوٹا قرار دیا۔ مسلمانوں کی طرف منافقین کی اضافت اور نسبت اس وقت درست ہوتی جب یہ مسلمانوں کے دین کے پیروکار ہوتے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دلی دوست ہیں) نیز (المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض منافق مرد اور منافق عورتیں بعض کا بعض سے تعلق ہے) دونوں آیتوں میں بعض کی نسبت بعض کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ دین اور ملت کے لحاظ سے ان کا آپس میں اتفاق ہے۔
Top